خواجہ غلام فرید ھوراں آپنی کتاب مقابیس مجالس وچ کھل کے پنجاب پنجابی دا ذکر تے آپنے آپ نوں پنجابی ثابت کیتا ، جھوٹ دروغ گوئی تے جعل سازی نال اونھاں نوں پنجاب وچ امپورٹ کیتی گئی جعلی شناخت دا ٹھپہ لان دی پوری کوشش کیتی گئی تے ھلے وی کیتی جا رئی اے پر جیس ویلے تائیں خواجہ غلام فرید ھوراں دی آپنی حیاتی وچ تحریر ھوئی مقابیس مجالس اصل حالت وچ موجود روے گی جھوٹ بولن والیاں دا مونھ کالا ای ھوندا روے گا ... *پنجابی شاعر و بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رح۔* Punjabi Sufi Poet Khuwaja Gulam Farid. ۔ خواجہ صاحب عظیم پنجابی شاعر و بزرگ ہیں۔ خواجہ صاحب کے ارشادات و اشعار میں سے پنجابی زبان اور پنجاب سے متعلق کچھ آپ دوست احباب کی نظر بشکریہ کالم نگار و محقق اور ادیب جناب ازہر منیر صاحب۔ اس تحریر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں پنجابی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رح کے کلام، ملفوظات، اشعار میں پنجاب اور پنجابی کے الفاظ لکھے ہیں۔ دوسرے حصے میں ان پر تفصیل سے روشنی ڈال کر خود خواجہ غلام فرید رح کی زبان مبارک سے ان کے علاقے کو پنجاب اور ان کے علاقے کی زبان کو پنجابی ثابت کیا گیا ہے۔ تیسرے یعنی آخری حصے میں ان جعلسازیوں کی طرف نشاندہی کی گئ ہے جو کئ افراد نے خواجہ غلام فرید رح، حضرت علی ہجویری رح اور ڈیرہ غازی خان کے پنجابی شاعر قاضی امام بخش شیروی سمیت دیگر پرانے پنجابی شاعروں کے کلام میں دانستہ کی ہیں۔ اور حکومت و متعلقہ سرکاری اداروں اور پنجابی تنظیموں و اداروں سے ان جعلسازیوں کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی کی درخواست کی گئ ہے۔ ۔۔۔۔ حصہ اول: مختصر: خواجہ صاحب کے ارشادات مقابیس المجالس سے: "حضرت قبلہ عالم نور محمد مہاری چشتیؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم) اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔ اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں دیس پنجاب کا راجہ قرار دیا: "عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی ملک پنجاب دا راجہ" (کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔) ، تتی تھی جوگن چودھار پھراں، ہند، سندھ، پنجاب تے ماڑ پھراں، سنج، بر تے شہر بزار پھراں، متاں یار ملم کہیں سانگ سبب" . مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم) اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ دوم: تفصیل: خواجہ غلام فریدؒ نے بھی ”مقابیس المجالس“ میں ان کے علاقے کی زبان کو پنجابی ہی بیان کیا ہے۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں‘ واضح انداز میں۔ یہ کتاب خواجہ صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ یعنی وہ گفتگوئیں اور درس جو وہ اپنے مریدین کو ارشاد فرماتے تھے اور جو احاطہ تحریر میں آئے۔ مولانا رکن الدین پرہار سونکی نے ان ملفوظات کو فارسی زبان میں تحریر کیا جبکہ اس کا اردو ترجمہ کپتان واحد بخش سیال نے کیا۔ خواجہ صاحب علم و حکمت اور تصوف کے یہ درس پنجابی زبان (اس کی مقامی بولی) میں ارشاد فرماتے تھے جسے جیسا کہ صوفیائے کرام کے ملفوظات کو تحریر کرنے کے حوالے سے دستور رہا ہے‘ مولانا رکن الدین فارسی زبان میں تحریر کرتے تھے جسے خواجہ صاحب اگلے روز دیکھ کر اگر اس میں کہیں تصحیح کی ضرورت ہوتی تو کرتے تھے۔ چونکہ خواجہ صاحب کے سامعین میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی تھی جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے۔ یہ لوگ صرف مقامی زبان پنجابی سے واقف ہوتے تھے اور عربی‘ فارسی‘ ہندی یا اردو نہیں جانتے تھے اس لئے گفتگو یا درس کے دوران جب ان زبانوں میں سے کسی زبان کا کوئی ایسا لفظ آجاتا جس کے بارے میں خواجہ صاحب یہ خیال کرتے کہ ان کے سامعین اس کا مطلب نہیں جانتے ہوں گے تو وہ یہ لفظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا پنجابی ترجمہ بھی بیان کر دیتے۔ یہ کہہ کر کہ: ”جسے پنجابی میں…. کہتے ہیں۔“ خواجہ صاحب نے اس کتاب میں واضح طور پر اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی بیان کیا ہے۔ سو مولانا پرہار سونکی نے جب قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ جو مہاراں شریف کے رہنے والے تھے‘ کے بارے میں دریافت کیا کہ آپ کس زبان میں کلام فرماتے تھے تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ: ”آپؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم) اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔ اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں پنجاب کا راجہ قرار دیا: عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی ملک پنجاب دا راجہ (کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔) قابل ذکر امر یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے یہاں ”ملک پنجاب“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ملک پنجاب اور دیس پنجاب ‘ صوبہ پنجاب سے مختلف بات ہے۔ اس کا مطلب ہے: ”وہ تمام علاقہ جو چاہے کسی بھی صوبے یا ریاست کا حصہ ہو اور اس کے لوگ جو چاہے کسی بھی ریاست یا صوبے میں بستے ہوں مگر ان کی قومیت اور زبان پنجابی ہو۔ چاہے اس کی ماجھی بولی چاہے شاہ پوری چاہے جھنگوچی‘ چاہے پوٹھوہاری‘ چاہے ہندکو‘ چاہے چھاچھی، ملتانی بولی‘ چاہے ریاستی بولی اور چاہے کوئی اور بولی۔“ صوبے تو انتظامی ضروریات اور سیاسی مصلحتوں کے تخت بنتے‘ ٹوٹتے رہتے ہیں اس سے قومیت نہیں بدل جاتی۔ مثلاً انگریز سامراج کے دیس پنجاب پر قبضے کے وقت پنجابی سرفروشوں کی طرف سے ان کے خلاف کی جانے والی شدید مزاحمت اور بعد ازاں پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے برطانوی سرکار کے خلاف کی جانے والی مسلسل اور ایک کے بعد دوسری بغاوتوں اور سرفروشانہ کارروائیوں کا پنجابیوں سے بدلہ لینے کیلئے انگریزوں نے پنجابی بولنے والے متعدد اضلاع کو پنجاب سے کاٹ کر نئے بننے والے صوبہ سرحد میں شامل کردیا تاہم اس سے وہاں رہنے والے اصل پرانی پنجابی زبان و تہذیب کے باشندوں کی قومیت نہیں بدل سکتی بلکہ پنجابی ہی ہے۔ پنجابی کی مختلف بولیاں۔ چھاچھی‘ ہندکو‘ تھلوچی وغیرہ۔ اب کچھ افراد نے یہاں یہ اعتراض بھی کیا کہ کچھ نئے ایڈیشنز میں اس شعر میں ملک پنجاب کا راجہ کی بجائے سندھ پنجاب کا راجہ کے الفاظ ہیں، تو چلیں جناب لمبی بحث یا پرانے اصل نسخے کی دلیل کی بجائے تھوڑی دیر کو یہ مان لیتے ہیں کہ ملک پنجاب کی بجائے سندھ پنجاب کا لفظ ہے، یعنی سندھ اور پنجاب دونوں علاقوں کا راجہ۔ تو کیا اس کے باوجود یہ حقیقت جھٹلائ جاسکتی یے کہ خواجہ غلام فرید نے ریاست بہاولپور کی زبان کو پنجابی کہا اور ریاست بہاولپور سمیت ملتان وغیرہ کو پنجاب کا حصہ قرار دیا۔ کیونکہ جب کسی علاقے کی زبان کو پنجابی کہہ دیا اور شعر و کافی میں ملتان و بہاولپور وغیرہ کو پنجاب سے علیحدہ اکائی قرار نہیں دیا ورنہ وہ ریاست بہاولپور کی شخصیت سے متعلق یہ کہتے کہ عرب وی تیڈی عجم وی تیڈی، ملتان، پنجاب دا راجہ، یعنی ملتان بطور علیحدہ اکائی لکھتے، یا یوں کہتے کہ بہاولپور، پنجاب دا راجہ یا سندھ، ملتان دا راجہ، لیکن انھوں نے ملک پنجاب دا راجہ کہا اور کچھ لوگوں کے مطابق سندھ، پنجاب دا راجہ کہا، لیکن ملتان اور بہاولپور کو پنجاب سے بطور علیحدہ اکائی نہیں لکھا۔ جس طرح خواجہ غلام فرید رح نے اپنی ایک کافی میں لکھا کہ ہند سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں، اب یہاں بھی خواجہ صاحب نے ملتان یا بہاولپور کو پنجاب سے علیحدہ نہیں گردانا۔ ورنہ وہ یہ کہہ سکتے تھے ہند سندھ ملتان تے ماڑ پھراں یا ہند سندھ بہاولپور تے ماڑ پھراں۔ اور کسی افسانوی لفظ سرائیکستان کا تو دور دور تک خواجہ غلام فرید نے ذکر تک نہیں کیا اور نہ سرائیکی لفظ کا ذکر کیا ملتان ڈیرہ بہاولپور کی زبان پر، بلکہ ببانگ دہل ان علاقوں کی زبان کو پنجابی کہا۔ خواجہ غلام فریدؒ نے ریاست بہاولپور کے علاقے مہاران شریف اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ کی زبان کو پنجابی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاگیا خواجہ غلام فریدؒ اپنے مریدین سے گفتگو یا درس کے دوران جب عربی، فارسی، ہندی یا اردو کا کوئی مشکل لفظ ادا کرتے تو حاضرین میں سے وہ لوگ جو یہ زبانیں نہیں جانتے تھے، انہیں سمجھانے کی خاطر اس لفظ کا پنجابی ترجمہ بھی بیان فرما دیتے تھے۔ مثلاً ”مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم) اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم) خواجہ صاحبؒ نے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ پنجابی زبان کے لفظ ہیں اور ان کے لیے کہیں بھی کسی اور لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اس لیے کہ خواجہ صاحبؒ بجا طور پر اپنی زبان کو پنجابی سمجھتے اور بیان کرتے تھے اور اپنے علاقے کے جن لوگوں کے ساتھ وہ گفتگو کررہے یا درس ارشاد فرما رہے ہوتے تھے چونکہ ان کی زبان بھی پنجابی (اس کی بولی ریاستی) ہی تھی تو وہ اپنی اور ان کی مشترکہ زبان کو پنجابی کے علاوہ کسی اور نام سے کیوں پکارتے؟ اور اگر ان کی اور ان کے سامعین کی زبان پنجابی نہیں تھی تو وہ گفتگو اور درس کے دوران ادا کیے جانے والے عربی، فارسی یا ہندی کے الفاظ کا پنجابی ترجمہ کیوں بیان کرتے؟ یہ کہہ کر کہ: ”جسے پنجابی میں…….. کہتے ہیں۔“ اسی بناء پہ انہوں نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کے بارے میں بتایا کہ: ”آپ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاران شریف میں بولی جاتی تھی۔“ یعنی پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاران شریف میں رائج ہے۔ اور خواجہ غلام فریدؒ کے مطابق خواجہ نورمحمد مہارویؒ اکثر پنجابی زبان کی وہ بولی تو بولتے ہی تھے جو مہاران شریف میں بولی جاتی ہے اس کے علاوہ خواجہ غلام فریدؒ ہی کے مطابق: ” بعض اوقات آپ ہندوستانی زبان میں کلام فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کے شیخ حضرت مولانا فخردہلوی قدس سرہ، کی زبان بھی ہندوستانی تھی۔“ (خواجہ غلام فریدؒ۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس22۔ جلد چہارم) یعنی خواجہ نورمحمدمہارویؒ زیادہ تر پنجابی زبان بولتے تھے جبکہ بعض اوقات ہندوستانی زبان ۔ زیادہ تر پنجابی کیوں؟ اس لیے کہ ان کی اور اپنے علاقے کے جن لوگوں سے وہ گفتگو کررہے ہوتے تھے ان لوگوں کی زبان پنجابی (اس کی بولی ریاستی) تھی۔ جبکہ بعض اوقات اسی طرح ہندوستانی جیسے آج بھی دیس پنجاب کے لوگ پنجابی بولنے کیساتھ ساتھ اردو بھی بولتے ہیں۔ خواجہ غلام فریدؒ نے اپنے علاقے کی جس زبان کو پنجابی کہا ہے وہ کہیں ہوا میں تحلیل نہیں ہوگئی بلکہ اب بھی اسی طرح موجود ہے (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) اور بہاولپور کے لوگ آج بھی وہی زبان بولتے ہیں۔ خواجہ غلام فریدؒ اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ بھی یہی زبان بولتے تھے اور خواجہ غلام فریدؒ نے اسے پنجابی زبان قرار دیا ہے۔ خواجہ غلام فریدؒ نے جسے پنجابی زبان کہا ہے وہ دیس پنجاب کے باقی کئ علاقوں کے علاوہ پوری (اب سابقہ) ریاست بہاولپور اور پنجاب کے جنوب میں کئ شہروں اور دیہات میں بولی جاتی ہے۔ یوں خواجہ غلام فرید ؒنے اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی قراردیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ سوم: "مظلوم خواجہ غلام فرید رح" ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، بشکریہ محققین ازہر منیر، مشتاق صوفی اور فضل فرید لالیکا۔ ۔ خواجہ غلام فرید رح کی تحاریر، ملفوظات اور شاعری کے اردو ترجموں، کچھ اصل نسخوں سمیت کچھ اور تصانیف میں جعلسازیاں اور حکومت سے اس متعلق مطالبات: ۔ اس تحریر کے پہلے دو حصوں میںَ آپ کے سامنے تفصیل اور ثبوتوں کے ساتھ پنجابی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رح کے ملفوظات و اشعار سے ان کے علاقے کی زبان کو پنجابی ثابت کیا گیا۔ اب اس آخری حصے میں ان جعلسازیوں کی طرف نشاندہی کی گئ ہے جو کئ افراد نے خواجہ غلام فرید رح، حضرت علی ہجویری رح اور ڈیرہ غازی خان کے پنجابی شاعر قاضی امام بخش شیروی سمیت دیگر پرانے پنجابی شاعروں کے کلام میں دانستہ اور نادانستہ کی ہیں۔ اور حکومت و متعلقہ سرکاری اداروں اور پنجابی تنظیموں و اداروں سے ان جعلسازیوں کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی کی درخواست کی گئ ہے۔ کیا خواجہ غلام فرید رح کے ملفوظات کی کتاب ”مقابیس المجالس“ میں کہیں پنجابی کے علاوہ کسی دوسری زبان یا بولی یا لہجے کا لفظ بھی موجود ہے؟ فارسی متن یعنی خواجہ غلام فریدؒ کے اصل ارشادات میں توخیر نہیں، نہ ہی آ سکتا تھا لیکن جعلسازی کے ذریعے اردو ترجموں میں پنجابی کو ہٹاکر دوسرے الفاظ کو ضرور داخل کردیا گیا ہے۔ یا کسی جگہ ترجمے میں خود سے کسی دوسری بولی یا لہجے کا لفظ اضافی لگادیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ، لائبریریز اور کتابوں کی دکانوں پر ملنے والے کپتان واحد بخش سیال صاحب کی طرف سے کیے گئے خواجہ صاحب کی مقابیس المجالس کے اردو ترجمے میں بھی کچھ جگہ غلط ترجمہ اور اضافی الفاظ لگاکر کسی دوسری بولی کا نام لکھا ہوا ہے، اگرچہ زیادہ تر اردو ترجمہ درست ہی سہی لیکن چند جگہ کی گئ جعلسازی بھی جعلسازی ہی کہلاتی ہے۔ یہاں تک کہ مقابیس کے ترجمے کا جو آنلائن لنک اس پوسٹ کے پہلے کمنٹ میں ہے اس میں بھی زیادہ صفحات پر پنجابی کا لفظ ہے لیکن چند صفحات پر غلط ترجمہ کرکے کسی اور نام کا لفظ بھی لگا ہوا ہے۔ جیسے تین مقابیس میں درست ترجمہ کرکے پنجابی کا لفظ موجود ہے جن تینوں مقابیس کی تفصیلات اسی پوسٹ میں اوپر لکھی ہوئی ہیں لیکن ان کے علاوہ کچھ اور مقابیس ایسے بھی ہیں جن میں خود سے دوسری بولی کا لفظ لگادیا گیا ہے ترجمے میں۔ کیونکہ اصلی فارسی متن میں وہ الفاظ موجود نہیں جو ترجمے میں خود سے لگادیے گئے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں۔ مقبوس 68 جلد چہارم۔ پہلے فارسی متن ملا خطہ کیجئے۔ ”حضور خواجہ ابقاہ اﷲتعالیٰ و حضرت قطب الموحدین خواجہ محمد بخش بہم دریک جام شیری می خوردند۔“ اس کا ترجمہ یہ ہے: ”حضرت اقدس اور حضرت قطب الموحدین خواجہ محمد بخش باہم ایک ہی برتن سے کھیر تناول فرما رہے تھے۔“ آپ نے فارسی عبارت ملاحظہ کی اور اس کا ترجمہ بھی، اس میں کہیں دور دور تک سرائکی کا لفظ موجود ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ اب ذرا اس کا وہ ترجمہ ملاحظہ کیجئے جو ایک صاحب نے کیا ہے: ”حضرت اقدس اور حضرت قطب الموحدین خواجہ محمد بخش باہم ایک ہی برتن سے کھیر جسے سرائیکی زبان میں کھیرنی کہتے ہیں تناول فرما رہے تھے۔“ آپ نے دیکھا اصل فارسی عبارت میں سرائیکی کا لفظ کہیں دور دور تک موجود نہیں تھا لیکن ترجمے میں یہ لفظ اس چالاکی سے شامل کردیا گیا ہے کہ وہ قارئین جن کی اصل فارسی متن تک رسائی نہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ سرائیکی کا لفظ اصل عبارت میں بھی موجود ہوگا۔ تبھی تو ترجمے میں آیا اور مترجم کا اس بات سے مقصود بھی یہی ہے۔ اس لئے کہ قارئین میں سے کون ہے جو اصل فارسی متن ڈھونڈتا پھرے گا؟ یوں قارئین کو یہ تاثر دیا جاسکے گا کہ مولانا پر ہار سونکیؒ جنہوں نے یہ مقابیس تحریر کئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خود خواجہ غلام فرید ؒ نے سرائیکی کا لفظ استعمال کیا ہوگا کہ آخر کتاب تو انہی کے ملفوظات کی ہے۔ چنانچہ قارئین کو بڑی آسانی سے یہ تاثر دیاجاسکے گا۔ تاثر کیا‘ دھوکہ۔ لیکن اس سے بھی بڑی جعل سازی ابھی آگے ہے۔درج بالا مثال میں ”مقابیس المجالس“ کی اصل (فارسی) عبارت میں تو سرائیکی کا لفظ کہیں موجود نہیں تھا لیکن ترجمے میں یہ زبردستی شامل کردیا گیا ہے۔ اب ایک ایسی مثال پیش کی جارہی ہے جس میں لفظ کا ترجمہ ہی غلط کرکے اسے سرائیکی بنادیاگیا ہے۔ ملاحظہ ہو مقبوس چودہ (14) جلد پنجم: ” در مصرعہ ثانیہ لفظ بیارا جداست بمعنی بہ قوت و می تن جداست بمعنی جہد کن کہ امر است از تنیدن و در ہندی زبان معنی مے تن تن ط مار است“ پہلے اس کا اصل ترجمہ ملاحظہ کیجئے: ”دوسرے مصرعے میں لفظ بیارا جدا ہے۔ بمعنی قوت کے اور می تن جدا ہے جس کے معنی ہیں جدوجہد کر جو امر ہے تنیدن سے اور ہندی زبان میں مے تن کے معنی تن مار ہیں۔“ کیا اصل فارسی متن میں کہیں سرائیکی کا لفظ موجود ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ اب ایک صاحب نے اس کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ملاحظہ کیجئے: ”دوسرے مصرع میں بیار جدا ہے جس کے معنی ہیں ”قوت“ کے اور می تن جدا ہے جس کے معنی ہیں ”جدوجہد“ کہ یہاں ”تن“ کا مصدر تنیدن ہے یعنی کوشش کرنا چنانچہ سرائیکی زبان میں بھی کہاجاتا ہے ”تن مار“ (کوشش کر)“(مقابیس المجالس۔ مقبوس 1۴۔ جلد پنجم) دیکھا آپ نے کیسا آسان نسخہ ہے! ذرا سی جعل سازی کی۔ اصل عبارت میں لفظ ہندی تھا“ ترجمے میں اسی کو سرائیکی بنا دیا اور خواجہ غلام فریدؒ پنجابی سے سرائیکی بن گئے۔ کیونکہ ویسے تو وہ کسی طرح سرائیکی نہیں بن سکتے تھے۔۔ ۔ اب یہ بات بذات خود اس جعلسازی کا راز فاش کرتی ہے کہ اگر ایک ہی کتاب کے ترجمے میں تین صفحات پر ایک ہی علاقے کی زبان کو پنجابی لکھا ہے اور کچھ اور صفحات پر پنجابی کی جگہ کسی دوسری بولی کا لفظ لگادیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے نئے آنے والے ترجموں میں تین صفحات سے بھی پنجابی کا لفظ ہٹادیا جائے تاکہ جعلسازی مکمل کی جاسکے۔ اس لیے دوست اگر موجودہ ترجمہ پڑھ کر کنفیوز ہوں کہ زیادہ جگہ پنجابی کا لفظ لکھا ہے اور چند جگہ کسی دوسری بولی کا لفظ ، اور مستقبل میں اگر مکمل جعلسازی کرکے مقابیس کے ترجموں میں سے سب جگہ سے پنجابی کا لفظ ہٹاکر دوسرے الفاظ کو لگادیا جائے تو ان سب باتوں کو ضرور ذہن میں رکھیں کہ اصل فارسی نسخوں میں ایسا ہرگز نہیں، البتہ اگر جعلسازوں کی ہمت اتنی بڑھ جائے کہ اصل فارسی نسخوں کو ہی نئے ایڈیشنز میں جعلسازی کے ساتھ مارکیٹ میں لے آئیں تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہاں ہر ایک کو جعلسازی کی کھلی اجازت ہے اور متعلقہ حکومتی اداروں کی جانب سے کوئ روک ٹوک نہیں کہ جعلسازوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔۔۔ اسی طرح کچھ اور پرانے مرحوم پنجابی شاعروں کے کلام کے نئے ایڈیشنز میں بھی دانستہ جعلسازی کرکے ان کے اشعار کے الفاظ میں سے پنجابی کا لفظ ہٹاکر دوسرے من پسند الفاظ لگادیے گئے۔ مثال کے طورپر ڈیرہ غازی خان کے پرانے پنجابی شاعر قاضی امام بخش شیروی صاحب مرحوم کی شاعری میں بھی کچھ افراد نے جعلسازی کرکے ان کی شاعری سے پنجابی کا لفظ غائب کرکے نئے ایڈیشنز میں پنجابی لفظ کی جگہ سرائیکی لفظ اور کسی جگہ کوئی اور لفظ جیسے ملتانی کا لفظ لگاکر مارکیٹ میں پیش کردیا ہے حالانکہ اصل شاعری میں شاعر نے پنجابی کا لفظ لکھا تھا۔ اصل شاعری یہ الفاظ ہیں پرانے ایڈیشنز میں: "وچ بولی فارس دے ہین تصنیف اول افسانے، کئی سے ورہیں گزر گئے جیکوں سن صاحب فرزانے، بعدازاں وچ اُردو تھئے تالیف حکم صحبا نے، ہن بولی پنجابی جوڑیم قصے بہت پرانے۔" چونکہ پرانی تحریروں اورکتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کرتے ہوئے جعلسازی کے ذریعے ان میں سے پنجابی کا لفظ نکالا جارہاہے اور سرائیکی کا لفظ اور کسی جگہ ملتانی کا لفظ زبردستی شامل کیا جارہا ہے اس لیے واضح کردیا جائے کہ قاضی صاحب کے یہ اشعار ان کی کتاب کے 1897ء کے ایڈیشن میں بھی مطبوعہ نسخے کے آخر پر موجود ہیں جہاں پنجابی لفظ لکھا ہے۔ یہ ایڈیشن مولوی خیرالدین صابر اور محمد فخرالدین تاجران کتب ملتان نے 1897ءعیسوی بمطابق 1315 ، ہجری میں شائع کیا تھا۔ حالانکہ ملتانی لہجہ و بولی بھی پنجابی زبان ہی ہے لیکن جب ایک شاعر نے لفظ ہی پنجابی کہا ہو تو کسی بھی دوسرے شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس میں تبدیلی کرے۔ اور پنجابی لفظ ہٹاکر سرائیکی کا لفظ لگانا تو اس شاعر مرحوم کے ساتھ انتہاء کا ظلم ہے۔ کیونکہ سرائیکی لفظ 1962 سے پہلے ان علاقوں میں تھا ہی نہیں تو پھر جس شاعر کی وفات ہی 1962 سے بھی کئ دہائیوں پہلے ہوچکی ہو اور اس کے اصل نسخے بھی اصل الفاظ کے ساتھ 1962 سے بہت پہلے موجود ہوں تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ خود سے ان میں تبدیلی کرے۔ حکومت کو ایسی جعلسازیوں کے خلاف عملی قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک قوم پرست صاحب ہیں جن کا ظہور شائد ہی پھر کبھی تاریخ میں دھرا جا سکے۔ ان صاحب نے تاریخی جعلسازی کرتے ہوئے اپنی مرتب کردہ کتاب میں عالمی پروفیسر عزیز احمد صاحب کی کتاب "نسل اور سلطنت" میں سے زبانوں اور ان کی شاخوں کا نقشہ یا چارٹ اپنی مرضی سے تبدیل کرکے پیش کردیا۔ اور جعلسازی یہ کی کہ پروفیسر عزیز صاحب نے اپنے نقشے میں جہاں لفظ پنجابی لکھا تھا وہ لفظ ہی ان جعلساز صاحب نے غائب کردیا اپنی کتاب میں، اور جہاں پروفیسر عزیز احمد صاحب نے لفظ سنسکرت لکھا تھا وہاں ان جعلساز صاحب نے سنسکرت کی جگہ بدل کر لفظ ملتانی لکھ کر شائع کردیا اور سنسکرت کے لفظ کی جگہ ہی بدل دی اس نقشے میں۔ واقعی یہ سب جعلسازیاں صرف یہیں ممکن ہیں جب تک حکومتی ادارے ایسے جعلسازوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔۔ یہاں تک کہ ان صاحب سمیت کچھ جعلساز افراد نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر حضرت علی ہجویریؒ کے فقرے ”بلدہ لہانور کہ از مضافات ملتان است“ کو ”لاہور یکے از مضافات ملتان است“ کر دیا ہے اپنی کچھ تحریروں و تصانیف میں۔ یعنی اتنے بڑے بزرگ کے جملے کا اصل فارسی متن ہی بدل کر عوام کے سامنے پیش کرنے کی جرات کردی ہے۔ "اسی طرح بہاولنگر پنجاب کے مشہور محقق و استاد فضل فرید لالیکا صاحب نے بھی خواجہ غلام فرید رح کے کلام سے کی گئ جعلسازیوں کے متعلق نشاندہی فرمائی ہے۔ فضل فرید لالیکا کا ایک تحقیقی مقالہ مثنوی معدن عشق سے متعلق ہے، جسے خواجہ غلام فرید کی شاعری کی تحقیق و تدوین کرنے والے صاحبان نے زیادہ موضوع بحث و حوالہ نہیں بنایا۔ یہ کتاب اکتوبر 1882 میں گلزار محمد پریس لکھنؤ میں شائع ہوئ، اور پبلشر تھے خیر محمد تاجر کتب، ملتان۔ خواجہ غلام فرید رح اس وقت حیات تھے جب یہ کتاب باہر نکلی۔ اس میں 96 صفحات اور 131 کافیاں ہیں۔ فضل فرید لالیکا کا کہنا ہے کہ یہ کتاب بنیاد ہونی چاہیے تھی خواجہ صاحب کی شاعری سے متعلق تمام ایڈیشنز کی لیکن اسے تمام ایڈیٹرز کی جانب سے نظرانداز کیا گیا۔ خواجہ صاحب کا موجودہ مشہور دیوان اس مجموعے پر مشتمل ہے جو مولوی عزیز الرحمن صاحب نے مرتب و تدوین کیا۔ فضل فرید لالیکا صاحب وہ تضادات سامنے لائے ہیں جو ان کافیوں میں موجود ہیں جو مثنوی میں چھپیں اور جو کافیوں کے دوسرے مجموعوں میں چپھیں جو بعد میں دوسرے ناموں شائع کیے گئے۔ اور یہ تضادات تھوڑے نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔ فہرست طویل ہے اور تحقیق کرنے والے اہل علم کی توجہ چاہتی ہے۔ جو اصل اشعار شروع میں شائع کیے گئے وہ ادبی طور پر زیادہ مضبوط ہیں۔ ایک اور بات جو لالیکا صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئ کہ کچھ ایڈیٹرز نے خواجہ غلام فرید رح کے کلام میں بہت سارے الفاظ و مصرعوں کے ساتھ تبدیلی اور خیانت بھی کی ہے، تاکہ ان اشعار کو اپنے لہجے کے مطابق دکھایا جائے۔۔ الفاظ جیسا کہ، تیرا، میرا، تیری، میری، نوں، وغیرہ۔ مثال کے طور پر ان الفاظ کو جان بوجھ کر تبدیل کردیا ان ایڈیٹرز نے، تیڈا تیڈی اور میڈا میڈی میں۔ اور نوں کو کوں میں تبدیل کردیا۔ ایسا عمل ان ایڈیٹرز کی ساکھ پر شدید برا اثر ڈال کر اسے مشکوک بناتا ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ایک مشہور لوک ادبی شاعر کے مشہور اشعار کو تبدیل کرکے جعلسازی کرے یا چاہے اچھی نیت سے ہی تبدیل کرے یہ سوچ کر کہ اس تبدیلی سے یہ کلام اس لہجہ بولنے والوں کو آسانی سے سمجھ آجائے گا جس لہجے میں کلام تبدیل کرکے لکھا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں یہ خیانت ہے۔ الغرض، فضل فرید لالیکا صاحب کا تحقیقی کام ان سب اہل علم افراد کو دیکھنا چاہیے جو ہماری ادبی و ثقافتی روایات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بشکریہ مشتاق صوفی صاحب۔ ڈان نیوز، جولائ 19، 2021۔" ظاہر ہے اب عوام کہاں لائبریریز اور کتابوں کی دکانوں پر جاکر اصل پرانے فارسی نسخے ڈھونڈے اور خریدے گی اپنا وقت اور پیسہ خرچ کر، اس لیے آسان طریقہ یہ اپنایا گیا ہے جعلسازی کا کہ آسانی سے دستیاب اردو ترجمے میں کچھ جگہ غلط بیانی کرکے عوام کو گمراہ کردیا جائے یا فارسی متن کو ہی نئے ایڈیشنز یا تصانیف و تحاریر میں بدل کر جھوٹ کو عوام کے سامنے پیش کردیا جائے۔۔ اب یہ ذمہ داری متعلقہ وفاقی و صوبائی سرکاری اداروں اور پنجابی ادبی تنظیموں کی تھی کہ وہ دہائیوں سے جاری اس غلط عمل کو رکواتے جس میں جعلسازی کے ذریعے پرانے شاعروں کے لٹریچر کے الفاظ کو تبدیل کیا جارہا ہے اور ایسی تمام غلط کتابیں ضبط کرکے اصل ترجمے والی کتابیں اور اصل متن کے مطابق کتابیں مارکیٹ، انٹرنیٹ اور لائبریریز میں رکھواتے، نیز جعلسازی و رد و بدل کرنے والے افراد اور پبلشرز کے خلاف قانونی کارروائ کی جاتی، لیکن افسوس کے ساتھ متعلقہ وفاقی و صوبائی سرکاری ادارے اور پنجابی ادبی ادارے یہ سب درست کروانے میں ناکام رہے یا سستی و غفلت دکھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Hassan Rana
خواجہ غلام فرید ھوراں آپنی کتاب مقابیس مجالس وچ کھل کے پنجاب پنجابی دا ذکر تے آپنے آپ نوں پنجابی ثابت کیتا ،
جھوٹ دروغ گوئی تے جعل سازی نال اونھاں نوں پنجاب وچ امپورٹ کیتی گئی جعلی شناخت دا ٹھپہ لان دی پوری کوشش کیتی گئی تے ھلے وی کیتی جا رئی اے پر جیس ویلے تائیں خواجہ غلام فرید ھوراں دی آپنی حیاتی وچ تحریر ھوئی مقابیس مجالس اصل حالت وچ موجود روے گی جھوٹ بولن والیاں دا مونھ کالا ای ھوندا روے گا ...
*پنجابی شاعر و بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رح۔*
Punjabi Sufi Poet Khuwaja Gulam Farid.
۔
خواجہ صاحب عظیم پنجابی شاعر و بزرگ ہیں۔
خواجہ صاحب کے ارشادات و اشعار میں سے پنجابی زبان اور پنجاب سے متعلق کچھ آپ دوست احباب کی نظر
بشکریہ کالم نگار و محقق اور ادیب جناب ازہر منیر صاحب۔
اس تحریر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،
پہلے حصے میں پنجابی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رح کے کلام، ملفوظات، اشعار میں پنجاب اور پنجابی کے الفاظ لکھے ہیں۔
دوسرے حصے میں ان پر تفصیل سے روشنی ڈال کر خود خواجہ غلام فرید رح کی زبان مبارک سے ان کے علاقے کو پنجاب اور ان کے علاقے کی زبان کو پنجابی ثابت کیا گیا ہے۔
تیسرے یعنی آخری حصے میں ان جعلسازیوں کی طرف نشاندہی کی گئ ہے جو کئ افراد نے خواجہ غلام فرید رح، حضرت علی ہجویری رح اور ڈیرہ غازی خان کے پنجابی شاعر قاضی امام بخش شیروی سمیت دیگر پرانے پنجابی شاعروں کے کلام میں دانستہ کی ہیں۔ اور حکومت و متعلقہ سرکاری اداروں اور پنجابی تنظیموں و اداروں سے ان جعلسازیوں کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی کی درخواست کی گئ ہے۔
۔۔۔۔
حصہ اول:
مختصر:
خواجہ صاحب کے ارشادات مقابیس المجالس سے:
"حضرت قبلہ عالم نور محمد مہاری چشتیؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“
(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم)
اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔
اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں دیس پنجاب کا راجہ قرار دیا:
"عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی
ملک پنجاب دا راجہ"
(کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔)
،
تتی تھی جوگن چودھار پھراں،
ہند، سندھ، پنجاب تے ماڑ پھراں،
سنج، بر تے شہر بزار پھراں،
متاں یار ملم کہیں سانگ سبب"
.
مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ:
”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“
(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم)
اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ:
”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“
(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حصہ دوم:
تفصیل:
خواجہ غلام فریدؒ نے بھی ”مقابیس المجالس“ میں ان کے علاقے کی زبان کو پنجابی ہی بیان کیا ہے۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں‘ واضح انداز میں۔
یہ کتاب خواجہ صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ یعنی وہ گفتگوئیں اور درس جو وہ اپنے مریدین کو ارشاد فرماتے تھے اور جو احاطہ تحریر میں آئے۔ مولانا رکن الدین پرہار سونکی نے ان ملفوظات کو فارسی زبان میں تحریر کیا جبکہ اس کا اردو ترجمہ کپتان واحد بخش سیال نے کیا۔
خواجہ صاحب علم و حکمت اور تصوف کے یہ درس پنجابی زبان (اس کی مقامی بولی) میں ارشاد فرماتے تھے جسے جیسا کہ صوفیائے کرام کے ملفوظات کو تحریر کرنے کے حوالے سے دستور رہا ہے‘ مولانا رکن الدین فارسی زبان میں تحریر کرتے تھے جسے خواجہ صاحب اگلے روز دیکھ کر اگر اس میں کہیں تصحیح کی ضرورت ہوتی تو کرتے تھے۔ چونکہ خواجہ صاحب کے سامعین میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی تھی جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے۔ یہ لوگ صرف مقامی زبان پنجابی سے واقف ہوتے تھے اور عربی‘ فارسی‘ ہندی یا اردو نہیں جانتے تھے اس لئے گفتگو یا درس کے دوران جب ان زبانوں میں سے کسی زبان کا کوئی ایسا لفظ آجاتا جس کے بارے میں خواجہ صاحب یہ خیال کرتے کہ ان کے سامعین اس کا مطلب نہیں جانتے ہوں گے تو وہ یہ لفظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا پنجابی ترجمہ بھی بیان کر دیتے۔ یہ کہہ کر کہ:
”جسے پنجابی میں…. کہتے ہیں۔“
خواجہ صاحب نے اس کتاب میں واضح طور پر اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی بیان کیا ہے۔ سو مولانا پرہار سونکی نے جب قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ جو مہاراں شریف کے رہنے والے تھے‘ کے بارے میں دریافت کیا کہ آپ کس زبان میں کلام فرماتے تھے تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ:
”آپؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“
(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم)
اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔
اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں پنجاب کا راجہ قرار دیا:
عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی
ملک پنجاب دا راجہ
(کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔)
قابل ذکر امر یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے یہاں ”ملک پنجاب“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ملک پنجاب اور دیس پنجاب ‘ صوبہ پنجاب سے مختلف بات ہے۔ اس کا مطلب ہے:
”وہ تمام علاقہ جو چاہے کسی بھی صوبے یا ریاست کا حصہ ہو اور اس کے لوگ جو چاہے کسی بھی ریاست یا صوبے میں بستے ہوں مگر ان کی قومیت اور زبان پنجابی ہو۔ چاہے اس کی ماجھی بولی چاہے شاہ پوری چاہے جھنگوچی‘ چاہے پوٹھوہاری‘ چاہے ہندکو‘ چاہے چھاچھی، ملتانی بولی‘ چاہے ریاستی بولی اور چاہے کوئی اور بولی۔“
صوبے تو انتظامی ضروریات اور سیاسی مصلحتوں کے تخت بنتے‘ ٹوٹتے رہتے ہیں اس سے قومیت نہیں بدل جاتی۔ مثلاً انگریز سامراج کے دیس پنجاب پر قبضے کے وقت پنجابی سرفروشوں کی طرف سے ان کے خلاف کی جانے والی شدید مزاحمت اور بعد ازاں پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے برطانوی سرکار کے خلاف کی جانے والی مسلسل اور ایک کے بعد دوسری بغاوتوں اور سرفروشانہ کارروائیوں کا پنجابیوں سے بدلہ لینے کیلئے انگریزوں نے پنجابی بولنے والے متعدد اضلاع کو پنجاب سے کاٹ کر نئے بننے والے صوبہ سرحد میں شامل کردیا تاہم اس سے وہاں رہنے والے اصل پرانی پنجابی زبان و تہذیب کے باشندوں کی قومیت نہیں بدل سکتی بلکہ پنجابی ہی ہے۔ پنجابی کی مختلف بولیاں۔ چھاچھی‘ ہندکو‘ تھلوچی وغیرہ۔
اب کچھ افراد نے یہاں یہ اعتراض بھی کیا کہ کچھ نئے ایڈیشنز میں اس شعر میں ملک پنجاب کا راجہ کی بجائے سندھ پنجاب کا راجہ کے الفاظ ہیں، تو چلیں جناب لمبی بحث یا پرانے اصل نسخے کی دلیل کی بجائے تھوڑی دیر کو یہ مان لیتے ہیں کہ ملک پنجاب کی بجائے سندھ پنجاب کا لفظ ہے، یعنی سندھ اور پنجاب دونوں علاقوں کا راجہ۔
تو کیا اس کے باوجود یہ حقیقت جھٹلائ جاسکتی یے کہ خواجہ غلام فرید نے ریاست بہاولپور کی زبان کو پنجابی کہا اور ریاست بہاولپور سمیت ملتان وغیرہ کو پنجاب کا حصہ قرار دیا۔ کیونکہ جب کسی علاقے کی زبان کو پنجابی کہہ دیا اور شعر و کافی میں ملتان و بہاولپور وغیرہ کو پنجاب سے علیحدہ اکائی قرار نہیں دیا ورنہ وہ ریاست بہاولپور کی شخصیت سے متعلق یہ کہتے کہ عرب وی تیڈی عجم وی تیڈی، ملتان، پنجاب دا راجہ، یعنی ملتان بطور علیحدہ اکائی لکھتے، یا یوں کہتے کہ بہاولپور، پنجاب دا راجہ یا سندھ، ملتان دا راجہ، لیکن انھوں نے ملک پنجاب دا راجہ کہا اور کچھ لوگوں کے مطابق سندھ، پنجاب دا راجہ کہا، لیکن ملتان اور بہاولپور کو پنجاب سے بطور علیحدہ اکائی نہیں لکھا۔ جس طرح خواجہ غلام فرید رح نے اپنی ایک کافی میں لکھا کہ ہند سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں، اب یہاں بھی خواجہ صاحب نے ملتان یا بہاولپور کو پنجاب سے علیحدہ نہیں گردانا۔ ورنہ وہ یہ کہہ سکتے تھے ہند سندھ ملتان تے ماڑ پھراں یا ہند سندھ بہاولپور تے ماڑ پھراں۔
اور کسی افسانوی لفظ سرائیکستان کا تو دور دور تک خواجہ غلام فرید نے ذکر تک نہیں کیا اور نہ سرائیکی لفظ کا ذکر کیا ملتان ڈیرہ بہاولپور کی زبان پر، بلکہ ببانگ دہل ان علاقوں کی زبان کو پنجابی کہا۔
خواجہ غلام فریدؒ نے ریاست بہاولپور کے علاقے مہاران شریف اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ کی زبان کو پنجابی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاگیا خواجہ غلام فریدؒ اپنے مریدین سے گفتگو یا درس کے دوران جب عربی، فارسی، ہندی یا اردو کا کوئی مشکل لفظ ادا کرتے تو حاضرین میں سے وہ لوگ جو یہ زبانیں نہیں جانتے تھے، انہیں سمجھانے کی خاطر اس لفظ کا پنجابی ترجمہ بھی بیان فرما دیتے تھے۔ مثلاً ”مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ:
”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“
(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم)
اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ:
”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“
(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم)
خواجہ صاحبؒ نے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ پنجابی زبان کے لفظ ہیں اور ان کے لیے کہیں بھی کسی اور لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اس لیے کہ خواجہ صاحبؒ بجا طور پر اپنی زبان کو پنجابی سمجھتے اور بیان کرتے تھے اور اپنے علاقے کے جن لوگوں کے ساتھ وہ گفتگو کررہے یا درس ارشاد فرما رہے ہوتے تھے چونکہ ان کی زبان بھی پنجابی (اس کی بولی ریاستی) ہی تھی تو وہ اپنی اور ان کی مشترکہ زبان کو پنجابی کے علاوہ کسی اور نام سے کیوں پکارتے؟ اور اگر ان کی اور ان کے سامعین کی زبان پنجابی نہیں تھی تو وہ گفتگو اور درس کے دوران ادا کیے جانے والے عربی، فارسی یا ہندی کے الفاظ کا پنجابی ترجمہ کیوں بیان کرتے؟ یہ کہہ کر کہ:
”جسے پنجابی میں…….. کہتے ہیں۔“
اسی بناء پہ انہوں نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کے بارے میں بتایا کہ:
”آپ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاران شریف میں بولی جاتی تھی۔“
یعنی پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاران شریف میں رائج ہے۔
اور خواجہ غلام فریدؒ کے مطابق خواجہ نورمحمد مہارویؒ اکثر پنجابی زبان کی وہ بولی تو بولتے ہی تھے جو مہاران شریف میں بولی جاتی ہے اس کے علاوہ خواجہ غلام فریدؒ ہی کے مطابق:
” بعض اوقات آپ ہندوستانی زبان میں کلام فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کے شیخ حضرت مولانا فخردہلوی قدس سرہ، کی زبان بھی ہندوستانی تھی۔“
(خواجہ غلام فریدؒ۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس22۔ جلد چہارم)
یعنی خواجہ نورمحمدمہارویؒ زیادہ تر پنجابی زبان بولتے تھے جبکہ بعض اوقات ہندوستانی زبان ۔ زیادہ تر پنجابی کیوں؟ اس لیے کہ ان کی اور اپنے علاقے کے جن لوگوں سے وہ گفتگو کررہے ہوتے تھے ان لوگوں کی زبان پنجابی (اس کی بولی ریاستی) تھی۔ جبکہ بعض اوقات اسی طرح ہندوستانی جیسے آج بھی دیس پنجاب کے لوگ پنجابی بولنے کیساتھ ساتھ اردو بھی بولتے ہیں۔
خواجہ غلام فریدؒ نے اپنے علاقے کی جس زبان کو پنجابی کہا ہے وہ کہیں ہوا میں تحلیل نہیں ہوگئی بلکہ اب بھی اسی طرح موجود ہے (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) اور بہاولپور کے لوگ آج بھی وہی زبان بولتے ہیں۔ خواجہ غلام فریدؒ اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ بھی یہی زبان بولتے تھے اور خواجہ غلام فریدؒ نے اسے پنجابی زبان قرار دیا ہے۔
خواجہ غلام فریدؒ نے جسے پنجابی زبان کہا ہے وہ دیس پنجاب کے باقی کئ علاقوں کے علاوہ پوری (اب سابقہ) ریاست بہاولپور اور پنجاب کے جنوب میں کئ شہروں اور دیہات میں بولی جاتی ہے۔ یوں خواجہ غلام فرید ؒنے اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی قراردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حصہ سوم:
"مظلوم خواجہ غلام فرید رح"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
بشکریہ محققین ازہر منیر، مشتاق صوفی اور فضل فرید لالیکا۔
۔
خواجہ غلام فرید رح کی تحاریر، ملفوظات اور شاعری کے اردو ترجموں، کچھ اصل نسخوں سمیت کچھ اور تصانیف میں جعلسازیاں اور حکومت سے اس متعلق مطالبات:
۔
اس تحریر کے پہلے دو حصوں میںَ آپ کے سامنے تفصیل اور ثبوتوں کے ساتھ پنجابی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رح کے ملفوظات و اشعار سے ان کے علاقے کی زبان کو پنجابی ثابت کیا گیا۔
اب اس آخری حصے میں ان جعلسازیوں کی طرف نشاندہی کی گئ ہے جو کئ افراد نے خواجہ غلام فرید رح، حضرت علی ہجویری رح اور ڈیرہ غازی خان کے پنجابی شاعر قاضی امام بخش شیروی سمیت دیگر پرانے پنجابی شاعروں کے کلام میں دانستہ اور نادانستہ کی ہیں۔ اور حکومت و متعلقہ سرکاری اداروں اور پنجابی تنظیموں و اداروں سے ان جعلسازیوں کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی کی درخواست کی گئ ہے۔
کیا خواجہ غلام فرید رح کے ملفوظات کی کتاب ”مقابیس المجالس“ میں کہیں پنجابی کے علاوہ کسی دوسری زبان یا بولی یا لہجے کا لفظ بھی موجود ہے؟ فارسی متن یعنی خواجہ غلام فریدؒ کے اصل ارشادات میں توخیر نہیں، نہ ہی آ سکتا تھا لیکن جعلسازی کے ذریعے اردو ترجموں میں پنجابی کو ہٹاکر دوسرے الفاظ کو ضرور داخل کردیا گیا ہے۔ یا کسی جگہ ترجمے میں خود سے کسی دوسری بولی یا لہجے کا لفظ اضافی لگادیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ انٹرنیٹ، لائبریریز اور کتابوں کی دکانوں پر ملنے والے کپتان واحد بخش سیال صاحب کی طرف سے کیے گئے خواجہ صاحب کی مقابیس المجالس کے اردو ترجمے میں بھی کچھ جگہ غلط ترجمہ اور اضافی الفاظ لگاکر کسی دوسری بولی کا نام لکھا ہوا ہے، اگرچہ زیادہ تر اردو ترجمہ درست ہی سہی لیکن چند جگہ کی گئ جعلسازی بھی جعلسازی ہی کہلاتی ہے۔
یہاں تک کہ مقابیس کے ترجمے کا جو آنلائن لنک اس پوسٹ کے پہلے کمنٹ میں ہے اس میں بھی زیادہ صفحات پر پنجابی کا لفظ ہے لیکن چند صفحات پر غلط ترجمہ کرکے کسی اور نام کا لفظ بھی لگا ہوا ہے۔
جیسے تین مقابیس میں درست ترجمہ کرکے پنجابی کا لفظ موجود ہے جن تینوں مقابیس کی تفصیلات اسی پوسٹ میں اوپر لکھی ہوئی ہیں لیکن ان کے علاوہ کچھ اور مقابیس ایسے بھی ہیں جن میں خود سے دوسری بولی کا لفظ لگادیا گیا ہے ترجمے میں۔ کیونکہ اصلی فارسی متن میں وہ الفاظ موجود نہیں جو ترجمے میں خود سے لگادیے گئے ہیں۔
ان میں سے چند ایک کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں۔
مقبوس 68 جلد چہارم۔
پہلے فارسی متن ملا خطہ کیجئے۔
”حضور خواجہ ابقاہ اﷲتعالیٰ و حضرت قطب الموحدین خواجہ محمد بخش بہم دریک جام شیری می خوردند۔“
اس کا ترجمہ یہ ہے:
”حضرت اقدس اور حضرت قطب الموحدین خواجہ محمد بخش باہم ایک ہی برتن سے کھیر تناول فرما رہے تھے۔“
آپ نے فارسی عبارت ملاحظہ کی اور اس کا ترجمہ بھی، اس میں کہیں دور دور تک سرائکی کا لفظ موجود ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ اب ذرا اس کا وہ ترجمہ ملاحظہ کیجئے جو ایک صاحب نے کیا ہے:
”حضرت اقدس اور حضرت قطب الموحدین خواجہ محمد بخش باہم ایک ہی برتن سے کھیر جسے سرائیکی زبان میں کھیرنی کہتے ہیں تناول فرما رہے تھے۔“
آپ نے دیکھا اصل فارسی عبارت میں سرائیکی کا لفظ کہیں دور دور تک موجود نہیں تھا لیکن ترجمے میں یہ لفظ اس چالاکی سے شامل کردیا گیا ہے کہ وہ قارئین جن کی اصل فارسی متن تک رسائی نہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ سرائیکی کا لفظ اصل عبارت میں بھی موجود ہوگا۔ تبھی تو ترجمے میں آیا اور مترجم کا اس بات سے مقصود بھی یہی ہے۔ اس لئے کہ قارئین میں سے کون ہے جو اصل فارسی متن ڈھونڈتا پھرے گا؟ یوں قارئین کو یہ تاثر دیا جاسکے گا کہ مولانا پر ہار سونکیؒ جنہوں نے یہ مقابیس تحریر کئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خود خواجہ غلام فرید ؒ نے سرائیکی کا لفظ استعمال کیا ہوگا کہ آخر کتاب تو انہی کے ملفوظات کی ہے۔ چنانچہ قارئین کو بڑی آسانی سے یہ تاثر دیاجاسکے گا۔ تاثر کیا‘ دھوکہ۔
لیکن اس سے بھی بڑی جعل سازی ابھی آگے ہے۔درج بالا مثال میں ”مقابیس المجالس“ کی اصل (فارسی) عبارت میں تو سرائیکی کا لفظ کہیں موجود نہیں تھا لیکن ترجمے میں یہ زبردستی شامل کردیا گیا ہے۔ اب ایک ایسی مثال پیش کی جارہی ہے جس میں لفظ کا ترجمہ ہی غلط کرکے اسے سرائیکی بنادیاگیا ہے۔ ملاحظہ ہو مقبوس چودہ (14) جلد پنجم:
” در مصرعہ ثانیہ لفظ بیارا جداست بمعنی بہ قوت و می تن جداست بمعنی جہد کن کہ امر است از تنیدن و در ہندی زبان معنی مے تن تن ط مار است“
پہلے اس کا اصل ترجمہ ملاحظہ کیجئے:
”دوسرے مصرعے میں لفظ بیارا جدا ہے۔ بمعنی قوت کے اور می تن جدا ہے جس کے معنی ہیں جدوجہد کر جو امر ہے تنیدن سے اور ہندی زبان میں مے تن کے معنی تن مار ہیں۔“
کیا اصل فارسی متن میں کہیں سرائیکی کا لفظ موجود ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ اب ایک صاحب نے اس کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ملاحظہ کیجئے:
”دوسرے مصرع میں بیار جدا ہے جس کے معنی ہیں ”قوت“ کے اور می تن جدا ہے جس کے معنی ہیں ”جدوجہد“ کہ یہاں ”تن“ کا مصدر تنیدن ہے یعنی کوشش کرنا چنانچہ سرائیکی زبان میں بھی کہاجاتا ہے ”تن مار“ (کوشش کر)“(مقابیس المجالس۔ مقبوس 1۴۔ جلد پنجم)
دیکھا آپ نے کیسا آسان نسخہ ہے! ذرا سی جعل سازی کی۔ اصل عبارت میں لفظ ہندی تھا“ ترجمے میں اسی کو سرائیکی بنا دیا اور خواجہ غلام فریدؒ پنجابی سے سرائیکی بن گئے۔ کیونکہ ویسے تو وہ کسی طرح سرائیکی نہیں بن سکتے تھے۔۔
۔
اب یہ بات بذات خود اس جعلسازی کا راز فاش کرتی ہے کہ اگر ایک ہی کتاب کے ترجمے میں تین صفحات پر ایک ہی علاقے کی زبان کو پنجابی لکھا ہے اور کچھ اور صفحات پر پنجابی کی جگہ کسی دوسری بولی کا لفظ لگادیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے نئے آنے والے ترجموں میں تین صفحات سے بھی پنجابی کا لفظ ہٹادیا جائے تاکہ جعلسازی مکمل کی جاسکے۔
اس لیے دوست اگر موجودہ ترجمہ پڑھ کر کنفیوز ہوں کہ زیادہ جگہ پنجابی کا لفظ لکھا ہے اور چند جگہ کسی دوسری بولی کا لفظ ، اور مستقبل میں اگر مکمل جعلسازی کرکے مقابیس کے ترجموں میں سے سب جگہ سے پنجابی کا لفظ ہٹاکر دوسرے الفاظ کو لگادیا جائے تو ان سب باتوں کو ضرور ذہن میں رکھیں کہ اصل فارسی نسخوں میں ایسا ہرگز نہیں، البتہ اگر جعلسازوں کی ہمت اتنی بڑھ جائے کہ اصل فارسی نسخوں کو ہی نئے ایڈیشنز میں جعلسازی کے ساتھ مارکیٹ میں لے آئیں تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہاں ہر ایک کو جعلسازی کی کھلی اجازت ہے اور متعلقہ حکومتی اداروں کی جانب سے کوئ روک ٹوک نہیں کہ جعلسازوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔۔۔
اسی طرح کچھ اور پرانے مرحوم پنجابی شاعروں کے کلام کے نئے ایڈیشنز میں بھی دانستہ جعلسازی کرکے ان کے اشعار کے الفاظ میں سے پنجابی کا لفظ ہٹاکر دوسرے من پسند الفاظ لگادیے گئے۔ مثال کے طورپر ڈیرہ غازی خان کے پرانے پنجابی شاعر قاضی امام بخش شیروی صاحب مرحوم کی شاعری میں بھی کچھ افراد نے جعلسازی کرکے ان کی شاعری سے پنجابی کا لفظ غائب کرکے نئے ایڈیشنز میں پنجابی لفظ کی جگہ سرائیکی لفظ اور کسی جگہ کوئی اور لفظ جیسے ملتانی کا لفظ لگاکر مارکیٹ میں پیش کردیا ہے حالانکہ اصل شاعری میں شاعر نے پنجابی کا لفظ لکھا تھا۔
اصل شاعری یہ الفاظ ہیں پرانے ایڈیشنز میں:
"وچ بولی فارس دے ہین تصنیف اول افسانے،
کئی سے ورہیں گزر گئے جیکوں سن صاحب فرزانے،
بعدازاں وچ اُردو تھئے تالیف حکم صحبا نے،
ہن بولی پنجابی جوڑیم قصے بہت پرانے۔"
چونکہ پرانی تحریروں اورکتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کرتے ہوئے جعلسازی کے ذریعے ان میں سے پنجابی کا لفظ نکالا جارہاہے اور سرائیکی کا لفظ اور کسی جگہ ملتانی کا لفظ زبردستی شامل کیا جارہا ہے اس لیے واضح کردیا جائے کہ قاضی صاحب کے یہ اشعار ان کی کتاب کے 1897ء کے ایڈیشن میں بھی مطبوعہ نسخے کے آخر پر موجود ہیں جہاں پنجابی لفظ لکھا ہے۔ یہ ایڈیشن مولوی خیرالدین صابر اور محمد فخرالدین تاجران کتب ملتان نے 1897ءعیسوی بمطابق 1315 ، ہجری میں شائع کیا تھا۔
حالانکہ ملتانی لہجہ و بولی بھی پنجابی زبان ہی ہے لیکن جب ایک شاعر نے لفظ ہی پنجابی کہا ہو تو کسی بھی دوسرے شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس میں تبدیلی کرے۔ اور پنجابی لفظ ہٹاکر سرائیکی کا لفظ لگانا تو اس شاعر مرحوم کے ساتھ انتہاء کا ظلم ہے۔ کیونکہ سرائیکی لفظ 1962 سے پہلے ان علاقوں میں تھا ہی نہیں تو پھر جس شاعر کی وفات ہی 1962 سے بھی کئ دہائیوں پہلے ہوچکی ہو اور اس کے اصل نسخے بھی اصل الفاظ کے ساتھ 1962 سے بہت پہلے موجود ہوں تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ خود سے ان میں تبدیلی کرے۔ حکومت کو ایسی جعلسازیوں کے خلاف عملی قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
اسی طرح ایک قوم پرست صاحب ہیں جن کا ظہور شائد ہی پھر کبھی تاریخ میں دھرا جا سکے۔ ان صاحب نے تاریخی جعلسازی کرتے ہوئے اپنی مرتب کردہ کتاب میں عالمی پروفیسر عزیز احمد صاحب کی کتاب "نسل اور سلطنت" میں سے زبانوں اور ان کی شاخوں کا نقشہ یا چارٹ اپنی مرضی سے تبدیل کرکے پیش کردیا۔ اور جعلسازی یہ کی کہ پروفیسر عزیز صاحب نے اپنے نقشے میں جہاں لفظ پنجابی لکھا تھا وہ لفظ ہی ان جعلساز صاحب نے غائب کردیا اپنی کتاب میں، اور جہاں پروفیسر عزیز احمد صاحب نے لفظ سنسکرت لکھا تھا وہاں ان جعلساز صاحب نے سنسکرت کی جگہ بدل کر لفظ ملتانی لکھ کر شائع کردیا اور سنسکرت کے لفظ کی جگہ ہی بدل دی اس نقشے میں۔
واقعی یہ سب جعلسازیاں صرف یہیں ممکن ہیں جب تک حکومتی ادارے ایسے جعلسازوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔۔
یہاں تک کہ ان صاحب سمیت کچھ جعلساز افراد نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر حضرت علی ہجویریؒ کے فقرے ”بلدہ لہانور کہ از مضافات ملتان است“ کو ”لاہور یکے از مضافات ملتان است“ کر دیا ہے اپنی کچھ تحریروں و تصانیف میں۔ یعنی اتنے بڑے بزرگ کے جملے کا اصل فارسی متن ہی بدل کر عوام کے سامنے پیش کرنے کی جرات کردی ہے۔
"اسی طرح بہاولنگر پنجاب کے مشہور محقق و استاد فضل فرید لالیکا صاحب نے بھی خواجہ غلام فرید رح کے کلام سے کی گئ جعلسازیوں کے متعلق نشاندہی فرمائی ہے۔
فضل فرید لالیکا کا ایک تحقیقی مقالہ مثنوی معدن عشق سے متعلق ہے، جسے خواجہ غلام فرید کی شاعری کی تحقیق و تدوین کرنے والے صاحبان نے زیادہ موضوع بحث و حوالہ نہیں بنایا۔ یہ کتاب اکتوبر 1882 میں گلزار محمد پریس لکھنؤ میں شائع ہوئ، اور پبلشر تھے خیر محمد تاجر کتب، ملتان۔
خواجہ غلام فرید رح اس وقت حیات تھے جب یہ کتاب باہر نکلی۔ اس میں 96 صفحات اور 131 کافیاں ہیں۔ فضل فرید لالیکا کا کہنا ہے کہ یہ کتاب بنیاد ہونی چاہیے تھی خواجہ صاحب کی شاعری سے متعلق تمام ایڈیشنز کی لیکن اسے تمام ایڈیٹرز کی جانب سے نظرانداز کیا گیا۔
خواجہ صاحب کا موجودہ مشہور دیوان اس مجموعے پر مشتمل ہے جو مولوی عزیز الرحمن صاحب نے مرتب و تدوین کیا۔
فضل فرید لالیکا صاحب وہ تضادات سامنے لائے ہیں جو ان کافیوں میں موجود ہیں جو مثنوی میں چھپیں اور جو کافیوں کے دوسرے مجموعوں میں چپھیں جو بعد میں دوسرے ناموں شائع کیے گئے۔ اور یہ تضادات تھوڑے نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔ فہرست طویل ہے اور تحقیق کرنے والے اہل علم کی توجہ چاہتی ہے۔ جو اصل اشعار شروع میں شائع کیے گئے وہ ادبی طور پر زیادہ مضبوط ہیں۔
ایک اور بات جو لالیکا صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئ کہ کچھ ایڈیٹرز نے خواجہ غلام فرید رح کے کلام میں بہت سارے الفاظ و مصرعوں کے ساتھ تبدیلی اور خیانت بھی کی ہے، تاکہ ان اشعار کو اپنے لہجے کے مطابق دکھایا جائے۔۔
الفاظ جیسا کہ، تیرا، میرا، تیری، میری، نوں، وغیرہ۔
مثال کے طور پر ان الفاظ کو جان بوجھ کر تبدیل کردیا ان ایڈیٹرز نے، تیڈا تیڈی اور میڈا میڈی میں۔ اور نوں کو کوں میں تبدیل کردیا۔ ایسا عمل ان ایڈیٹرز کی ساکھ پر شدید برا اثر ڈال کر اسے مشکوک بناتا ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ایک مشہور لوک ادبی شاعر کے مشہور اشعار کو تبدیل کرکے جعلسازی کرے یا چاہے اچھی نیت سے ہی تبدیل کرے یہ سوچ کر کہ اس تبدیلی سے یہ کلام اس لہجہ بولنے والوں کو آسانی سے سمجھ آجائے گا جس لہجے میں کلام تبدیل کرکے لکھا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں یہ خیانت ہے۔
الغرض، فضل فرید لالیکا صاحب کا تحقیقی کام ان سب اہل علم افراد کو دیکھنا چاہیے جو ہماری ادبی و ثقافتی روایات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
بشکریہ مشتاق صوفی صاحب۔
ڈان نیوز، جولائ 19، 2021۔"
ظاہر ہے اب عوام کہاں لائبریریز اور کتابوں کی دکانوں پر جاکر اصل پرانے فارسی نسخے ڈھونڈے اور خریدے گی اپنا وقت اور پیسہ خرچ کر، اس لیے آسان طریقہ یہ اپنایا گیا ہے جعلسازی کا کہ آسانی سے دستیاب اردو ترجمے میں کچھ جگہ غلط بیانی کرکے عوام کو گمراہ کردیا جائے یا فارسی متن کو ہی نئے ایڈیشنز یا تصانیف و تحاریر میں بدل کر جھوٹ کو عوام کے سامنے پیش کردیا جائے۔۔
اب یہ ذمہ داری متعلقہ وفاقی و صوبائی سرکاری اداروں اور پنجابی ادبی تنظیموں کی تھی کہ وہ دہائیوں سے جاری اس غلط عمل کو رکواتے جس میں جعلسازی کے ذریعے پرانے شاعروں کے لٹریچر کے الفاظ کو تبدیل کیا جارہا ہے اور ایسی تمام غلط کتابیں ضبط کرکے اصل ترجمے والی کتابیں اور اصل متن کے مطابق کتابیں مارکیٹ، انٹرنیٹ اور لائبریریز میں رکھواتے، نیز جعلسازی و رد و بدل کرنے والے افراد اور پبلشرز کے خلاف قانونی کارروائ کی جاتی، لیکن افسوس کے ساتھ متعلقہ وفاقی و صوبائی سرکاری ادارے اور پنجابی ادبی ادارے یہ سب درست کروانے میں ناکام رہے یا سستی و غفلت دکھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Hassan Rana
Comments
Post a Comment