آپنی دھرتی دے ھیرے ورگے ھیروآں دے بارے پنجاب پنجابی دی لاعلمی بوھت ای ماڑی گل اے ، جیس بندے دے ناں تے شھر آباد ھویا اوس بارے شھر دے واسیاں نوں کج علم ای نئیں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ دے ناں نال منسوب چوک تے ہری سنگھ نلوا دا مجسمہ لان دا فیصلہ ای غلط سی ، پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل ہری پور دی انتظامیہ توں مطالبہ کر دا اے کہ ہری سنگھ نلوا دے مجسمے نوں اوھدی حیاتی دے اھم واقعات نال کسے مناسب جگہ تے نصب کرائے . #PGFInt *پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل.PGFInt* --------------------------------------------------------------------------- ہری پور ، صدیق اکبر چوک سے ہری سنگھ نلوہ کا مجسمہ ہٹا کر صدیق اکبر چوک کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا تفصیل کے مطابق صدیق اکبر چوک میں انتظامیہ کی جانب سے ایک ایک گھڑ سوار کا مجسمہ لگا دیا گیا جس کے دائیں ہاتھ میں ایک تلوار تھی بعد میں لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ ہری سنگھ نلوہ کا مجسمہ ہے ، لوگوں کے احتجاج کرنے پہ وہاں کے مقامی ایم پی اے کے حکم پہ اس مجسمے کو اتار دیا گیا اور صدیق اکبر چوک کا بورڈ لگا دیا گیا اب اس سارے معاملے میں سوالیہ نشان یہ ہے کہ ایک ایسا چوک جس کا نام حضرت ابوبکر صدیق کے نام پہ تھا وہاں اس مجسمے کو آویزاں کیوں کیا گیا کہ لوگوں کو اعتراض کا موقع ملتا ؟؟ اس مجسمے کو کسی دوری جگہ لگایا جا سکتا تھا تاکہ لوگوں کو اعتراض کا موقع نا ملتا دوسری بات یہ ہے کہ ، کیا ہری پور کے لوگ اپنے مقامی ہیروز سے واقف ہیں اور اگر واقف نہیں تو کیا واقفئیت لینا بھی نہیں چاہتے ، اور کیا ہری پور کے لوگ اپنی تاریخ اپنی دھرتی سے جڑے لوگوں کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا ہری پور کے دوستوں کو معلوم نہیں کہ یہ لوگ تب پنجابی ہی تھے جب رنجیت سنگھ کا دور حکومت تھا اور یہ ہری پور پنجاب تھا ، دیہلی سے کابل تک ، کیا وقت گزرنے کے بعد حقائیق بدل جاتے ہیں ؟ کیا ہمارے لوگوں یہ معلوم ہے کہ شان اور معمر رانا کے علاوہ بھی ہیرو کا کوئی تصور ہوتا ہے ؟؟؟ ہری سنگھ نلوہ جو کہ گجرانوالا میں 1791 میں پیدہ ہوا پنجاب پہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت کے بعد یہ اسکی فوج کا حصہ بنا اور اپنی جرات اور بہادری کی بنیاد پہ اسکی فوج کا اپہ سالار بن گیا ، رنجیت سنگھ کے دور حکومت کے دوران کئی جنگوں کی سربراہی کی ، دیہلی سے پشاور تک پنجاب کی سرحدوں کو وسیع اور مضبوط کرنے میں اس جرنیل کی بہادری کا بہت عمل دخل تھا ہری سنگھ نلوہ کو باغ مار بھی کہا جاتا ہے جسکا مطلب ہے شیر کو مارنے والا ، مشہور ہے کہ اپنے ہاتھوں کی مدد سے بغیر کسی ہتھیار کے اس نے شیر کو مارا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں پنجاب کی فوج کی کمان جب تک ہری سنگھ نلوہ کے ہاتھ رہی اس نے کامیابی کے کئی جگہوں پہ جھنڈے گاڑھے اور اس کی انہی خدمات اور بہادری کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئیے اسکے نام پہ ایک شہر ہری پور آباد کیا گیا ، جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ پھلتا پھولتا ہوا ایک شاندار شہر بن گیا 1837 کو ہری سنگھ نلوہ قلعہ جمرود میں دوران ایک جھڑپ جہان فانی سے چھیالیس سال کی عمر میں کوچ کر گئیے ہمارے مقامی ہیروز کے حوالے سے تاریخ نے اکثر اس طرح کے لفظوں کا چناو کیا ہے جس سے مقامی لوگ اپنی ہی دھرتی کے بیٹوں سے بد ظن ہوئیے ہیں انہیں قبول نہیں کرتے اور ان کے اس دھرتی سے تعلق فخر کرنے کی بجائیے قابل شرمندگی سمجھتے ہیں لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری اسی دھرتی کے بیٹے ہیں اور جو قومیں حقائیق سے نگاہیں پھیر لیتی ہیں سچ کی بجائیے اپنی تخیلاتی دنیا میں رہتے ہیں وہ کبھی ایک با وقار قوم نہیں بن سکتے کبھی اپنے اوپر فخر نہیں کر سکتے ہمیں اس دھرتی کے تمام ہیروز سے وقفیت ضروری ہے تاکہ ہم فخر سے کیہہ سکیں کہ ہم جس دھرتی پہ بستے ہیں یہاں اسلام سے قبل بھی اور آمد اسلام کے بعد بھی بہادر غیرتمند جوانوں کا دور رہا ہے دنیا کے فاتح سکندر کے قدموں کو روکنے والا عظیم مقامی ہیرو پورس ہو ، مغلوں سے ٹکر لینے والا عبدللہ بھٹی عرف دلا بھٹی ہو ، انگریزوں سے لڑتے ہوئیے جام شہادت پانے والا رائیے احمد کھرل ہو ، مراد فتیانہ ہو ، نظام لوہار ہو ، انگریز فوجی افسر جرنل ایڈوائیر کو مار کے جلیاں والا باغ کا بدلہ لینے والا ادھم سنگھ ہو ، یا انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئیے جوانی میں ہی پھانسی کا پھندہ چومنے والا بھگت سنگھ ہو یا ان جیسے سینکڑوں ہزاروں گمنام ہیروز ہوں جنہوں نے کالے پانیوں کی سزائیں کاٹی ہوں یا پھر کسی معرکے میں جام شہادت پایا ہو ، بطور ایک با ضمیر اور زندہ قوم کے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنی مٹی سے جڑے ان تمام بہادروں کی جرات بہادری کو سلام پیش کریں خراج عقیدت پیش کریں اور انہیں قبول کریں کہ ہاں وہ اس دھرتی کے عظیم بیٹے ہیں جنہوں نے اس دھرتی کی عزت وقار اور دفاع کی خاطر موت کو بھی ہنس کے گلے لگا لیا ( ریاست علی ثانی )
آپنی دھرتی دے ھیرے ورگے ھیروآں دے بارے پنجاب پنجابی دی لاعلمی بوھت ای ماڑی گل اے ،
جیس بندے دے ناں تے شھر آباد ھویا اوس بارے شھر دے واسیاں نوں کج علم ای نئیں ،
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ دے ناں نال منسوب چوک تے ہری سنگھ نلوا دا مجسمہ لان دا فیصلہ ای غلط سی ،
پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل ہری پور دی انتظامیہ توں مطالبہ کر دا اے کہ ہری سنگھ نلوا دے مجسمے نوں اوھدی حیاتی دے اھم واقعات نال کسے مناسب جگہ تے نصب کرائے .
#PGFInt
*پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل.PGFInt*
---------------------------------------------------------------------------
ہری پور ، صدیق اکبر چوک سے ہری سنگھ نلوہ کا مجسمہ ہٹا کر صدیق اکبر چوک کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا
تفصیل کے مطابق صدیق اکبر چوک میں انتظامیہ کی جانب سے ایک ایک گھڑ سوار کا مجسمہ لگا دیا گیا جس کے دائیں ہاتھ میں ایک تلوار تھی
بعد میں لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ ہری سنگھ نلوہ کا مجسمہ ہے ، لوگوں کے احتجاج کرنے پہ وہاں کے مقامی ایم پی اے کے حکم پہ اس مجسمے کو اتار دیا گیا اور صدیق اکبر چوک کا بورڈ لگا دیا گیا
اب اس سارے معاملے میں سوالیہ نشان یہ ہے کہ ایک ایسا چوک جس کا نام حضرت ابوبکر صدیق کے نام پہ تھا وہاں اس مجسمے کو آویزاں کیوں کیا گیا کہ لوگوں کو اعتراض کا موقع ملتا ؟؟
اس مجسمے کو کسی دوری جگہ لگایا جا سکتا تھا تاکہ لوگوں کو اعتراض کا موقع نا ملتا
دوسری بات یہ ہے کہ ، کیا ہری پور کے لوگ اپنے مقامی ہیروز سے واقف ہیں اور اگر واقف نہیں تو کیا واقفئیت لینا بھی نہیں چاہتے ، اور کیا ہری پور کے لوگ اپنی تاریخ اپنی دھرتی سے جڑے لوگوں کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں ؟
کیا ہری پور کے دوستوں کو معلوم نہیں کہ یہ لوگ تب پنجابی ہی تھے جب رنجیت سنگھ کا دور حکومت تھا اور یہ ہری پور پنجاب تھا ، دیہلی سے کابل تک ، کیا وقت گزرنے کے بعد حقائیق بدل جاتے ہیں ؟
کیا ہمارے لوگوں یہ معلوم ہے کہ شان اور معمر رانا کے علاوہ بھی ہیرو کا کوئی تصور ہوتا ہے ؟؟؟
ہری سنگھ نلوہ جو کہ گجرانوالا میں 1791 میں پیدہ ہوا
پنجاب پہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت کے بعد یہ اسکی فوج کا حصہ بنا اور اپنی جرات اور بہادری کی بنیاد پہ اسکی فوج کا اپہ سالار بن گیا ، رنجیت سنگھ کے دور حکومت کے دوران کئی جنگوں کی سربراہی کی ، دیہلی سے پشاور تک پنجاب کی سرحدوں کو وسیع اور مضبوط کرنے میں اس جرنیل کی بہادری کا بہت عمل دخل تھا
ہری سنگھ نلوہ کو باغ مار بھی کہا جاتا ہے جسکا مطلب ہے شیر کو مارنے والا ، مشہور ہے کہ اپنے ہاتھوں کی مدد سے بغیر کسی ہتھیار کے اس نے شیر کو مارا تھا
اس میں کوئی شک نہیں کہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں پنجاب کی فوج کی کمان جب تک ہری سنگھ نلوہ کے ہاتھ رہی اس نے کامیابی کے کئی جگہوں پہ جھنڈے گاڑھے اور اس کی انہی خدمات اور بہادری کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئیے اسکے نام پہ ایک شہر ہری پور آباد کیا گیا ، جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ پھلتا پھولتا ہوا ایک شاندار شہر بن گیا
1837 کو ہری سنگھ نلوہ قلعہ جمرود میں دوران ایک جھڑپ جہان فانی سے چھیالیس سال کی عمر میں کوچ کر گئیے
ہمارے مقامی ہیروز کے حوالے سے تاریخ نے اکثر اس طرح کے لفظوں کا چناو کیا ہے جس سے مقامی لوگ اپنی ہی دھرتی کے بیٹوں سے بد ظن ہوئیے ہیں انہیں قبول نہیں کرتے اور ان کے اس دھرتی سے تعلق فخر کرنے کی بجائیے قابل شرمندگی سمجھتے ہیں
لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری اسی دھرتی کے بیٹے ہیں اور جو قومیں حقائیق سے نگاہیں پھیر لیتی ہیں سچ کی بجائیے اپنی تخیلاتی دنیا میں رہتے ہیں وہ کبھی ایک با وقار قوم نہیں بن سکتے کبھی اپنے اوپر فخر نہیں کر سکتے
ہمیں اس دھرتی کے تمام ہیروز سے وقفیت ضروری ہے تاکہ ہم فخر سے کیہہ سکیں کہ ہم جس دھرتی پہ بستے ہیں یہاں اسلام سے قبل بھی اور آمد اسلام کے بعد بھی بہادر غیرتمند جوانوں کا دور رہا ہے
دنیا کے فاتح سکندر کے قدموں کو روکنے والا عظیم مقامی ہیرو پورس ہو ، مغلوں سے ٹکر لینے والا عبدللہ بھٹی عرف دلا بھٹی ہو ، انگریزوں سے لڑتے ہوئیے جام شہادت پانے والا رائیے احمد کھرل ہو ، مراد فتیانہ ہو ، نظام لوہار ہو ، انگریز فوجی افسر جرنل ایڈوائیر کو مار کے جلیاں والا باغ کا بدلہ لینے والا ادھم سنگھ ہو ، یا انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئیے جوانی میں ہی پھانسی کا پھندہ چومنے والا بھگت سنگھ ہو یا ان جیسے سینکڑوں ہزاروں گمنام ہیروز ہوں جنہوں نے کالے پانیوں کی سزائیں کاٹی ہوں یا پھر کسی معرکے میں جام شہادت پایا ہو ، بطور ایک با ضمیر اور زندہ قوم کے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنی مٹی سے جڑے ان تمام بہادروں کی جرات بہادری کو سلام پیش کریں خراج عقیدت پیش کریں اور انہیں قبول کریں کہ ہاں وہ اس دھرتی کے عظیم بیٹے ہیں جنہوں نے اس دھرتی کی عزت وقار اور دفاع کی خاطر موت کو بھی ہنس کے گلے لگا لیا
( ریاست علی ثانی )
Comments
Post a Comment