خواجہ غلام فرید ھوراں مقابلیس مجالس وچ آپنی تے آپنے مرشد دی زبان پنجابی بیان کیتی اے ، تے کسے اک جگہ تے کوئی چھوٹا جیہا اشارہ وی نئیں کیتا کہ اونھاں دی زبان یاں علاقہ پنجاب توں وکھ اے ، پتہ نئیں اج کئی عقل توں آنے سازشی کیوں اونھاں نوں پنجاب پنجابی توں وکھ لکھدے آکھدے نیں ؟؟؟ *پنجابی شاعر و صوفی حضرت خواجہ غلام فرید رح۔. خواجہ غلام فرید رح کا عرس آج سے شروع ہے۔ خواجہ صاحب عظیم پنجابی شاعر و بزرگ ہیں۔* خواجہ صاحب کے ارشادات و اشعار میں سے کچھ آپ دوست احباب کی نظر۔ بشکریہ کالم نگار و محقق اور ادیب جناب ازہر منیر صاحب۔ ۔۔۔۔ مختصر: خواجہ صاحب کے ارشادات مقابیس المجالس سے: "حضرت قبلہ عالم نور محمد مہاری چشتیؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم) اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔ اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں دیس پنجاب کا راجہ قرار دیا: "عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی ملک پنجاب دا راجہ" (کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔) مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم) اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم) ، "تتی تھی جوگن چودھار پھراں، ہند، سندھ، پنجاب تے ماڑ پھراں، سنج، بر تے شہر بزار پھراں، متاں یار ملم کہیں سانگ سبب" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفصیل: خواجہ غلام فریدؒ نے بھی ”مقابیس المجالس“ میں اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی ہی بیان کیا ہے۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں‘ واضح انداز میں۔ یہ کتاب خواجہ صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ یعنی وہ گفتگوئیں اور درس جو وہ اپنے مریدین کو ارشاد فرماتے تھے اور جو احاطہ تحریر میں آئے۔ مولانا رکن الدین پرہار سونکی نے ان ملفوظات کو فارسی زبان میں تحریر کیا جبکہ اس کا اردو ترجمہ کپتان واحد بخش سیال نے کیا۔ خواجہ صاحب علم و حکمت اور تصوف کے یہ درس پنجابی زبان (اس کی مقامی بولی) میں ارشاد فرماتے تھے جسے جیسا کہ صوفیائے کرام کے ملفوظات کو تحریر کرنے کے حوالے سے دستور رہا ہے‘ مولانا رکن الدین فارسی زبان میں تحریر کرتے تھے جسے خواجہ صاحب اگلے روز دیکھ کر اگر اس میں کہیں تصحیح کی ضرورت ہوتی تو کرتے تھے۔ چونکہ خواجہ صاحب کے سامعین میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی تھی جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے۔ یہ لوگ صرف مقامی زبان پنجابی سے واقف ہوتے تھے اور عربی‘ فارسی‘ ہندی یا اردو نہیں جانتے تھے اس لئے گفتگو یا درس کے دوران جب ان زبانوں میں سے کسی زبان کا کوئی ایسا لفظ آجاتا جس کے بارے میں خواجہ صاحب یہ خیال کرتے کہ ان کے سامعین اس کا مطلب نہیں جانتے ہوں گے تو وہ یہ لفظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا پنجابی ترجمہ بھی بیان کر دیتے۔ یہ کہہ کر کہ: ”جسے پنجابی میں…. کہتے ہیں۔“ خواجہ صاحب نے اس کتاب میں واضح طور پر اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی بیان کیا ہے۔ سو مولانا پرہار سونکی نے جب قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ جو مہاراں شریف کے رہنے والے تھے‘ کے بارے میں دریافت کیا کہ آپ کس زبان میں کلام فرماتے تھے تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ: ”آپؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم) اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔ اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں پنجاب کا راجہ قرار دیا: عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی ملک پنجاب دا راجہ (کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔) قابل ذکر امر یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے یہاں ”ملک پنجاب“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ملک پنجاب اور دیس پنجاب ‘ صوبہ پنجاب سے مختلف بات ہے۔ اس کا مطلب ہے: ”وہ تمام علاقہ جو چاہے کسی بھی صوبے یا ریاست کا حصہ ہو اور اس کے لوگ جو چاہے کسی بھی ریاست یا صوبے میں بستے ہوں مگر ان کی قومیت اور زبان پنجابی ہو۔ چاہے اس کی ماجھی بولی چاہے شاہ پوری چاہے جھنگوچی‘ چاہے پوٹھوہاری‘ چاہے ہندکو‘ چاہے چھاچھی، ملتانی بولی‘ چاہے ریاستی بولی اور چاہے کوئی اور بولی۔“ صوبے تو انتظامی ضروریات اور سیاسی مصلحتوں کے تخت بنتے‘ ٹوٹتے رہتے ہیں اس سے قومیت نہیں بدل جاتی۔ مثلاً انگریز سامراج کے دیس پنجاب پر قبضے کے وقت پنجابی سرفروشوں کی طرف سے ان کے خلاف کی جانے والی شدید مزاحمت اور بعد ازاں پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے برطانوی سرکار کے خلاف کی جانے والی مسلسل اور ایک کے بعد دوسری بغاوتوں اور سرفروشانہ کارروائیوں کا پنجابیوں سے بدلہ لینے کیلئے انگریزوں نے پنجابی بولنے والے متعدد اضلاع کو پنجاب سے کاٹ کر نئے بننے والے صوبہ سرحد میں شامل کردیا تاہم اس سے وہاں رہنے واے اصل پرانی پنجابی زبان و تہذیب کے باشندوں کی قومیت نہیں بدل سکتی بلکہ پنجابی ہی ہے۔ پنجابی کی مختلف بولیاں۔ چھاچھی‘ ہندکو‘ تھلوچی وغیرہ۔ خواجہ غلام فریدؒ نے ریاست بہاولپور کے علاقے مہاران شریف اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ کی زبان کو پنجابی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاگیا خواجہ غلام فریدؒ اپنے مریدین سے گفتگو یا درس کے دوران جب عربی، فارسی، ہندی یا اردو کا کوئی مشکل لفظ ادا کرتے تو حاضرین میں سے وہ لوگ جو یہ زبانیں نہیں جانتے تھے، انہیں سمجھانے کی خاطر اس لفظ کا پنجابی ترجمہ بھی بیان فرما دیتے تھے۔ مثلاً ”مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم) اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ: ”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“ (خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم) خواجہ صاحبؒ نے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ پنجابی زبان کے لفظ ہیں اور ان کے لیے کہیں بھی کسی اور لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اس لیے کہ خواجہ صاحبؒ بجا طور پر اپنی زبان کو پنجابی سمجھتے اور بیان کرتے تھے اور اپنے علاقے کے جن لوگوں کے ساتھ وہ گفتگو کررہے یا درس ارشاد فرما رہے ہوتے تھے چونکہ ان کی زبان بھی پنجابی (اس کی بولی ریاستی) ہی تھی تو وہ اپنی اور ان کی مشترکہ زبان کو پنجابی کے علاوہ کسی اور نام سے کیوں پکارتے؟ اور اگر ان کی اور ان کے سامعین کی زبان پنجابی نہیں تھی تو وہ گفتگو اور درس کے دوران ادا کیے جانے والے عربی، فارسی یا ہندی کے الفاظ کا پنجابی ترجمہ کیوں بیان کرتے؟ یہ کہہ کر کہ: ”جسے پنجابی میں…….. کہتے ہیں۔“ اسی بناء پہ انہوں نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کے بارے میں بتایا کہ: ”آپ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاران شریف میں بولی جاتی تھی۔“ یعنی پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاران شریف میں رائج ہے۔ اور خواجہ غلام فریدؒ کے مطابق خواجہ نورمحمد مہارویؒ اکثر پنجابی زبان کی وہ بولی تو بولتے ہی تھے جو مہاران شریف میں بولی جاتی ہے اس کے علاوہ خواجہ غلام فریدؒ ہی کے مطابق: ” بعض اوقات آپ ہندوستانی زبان میں کلام فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کے شیخ حضرت مولانا فخردہلوی قدس سرہ، کی زبان بھی ہندوستانی تھی۔“ (خواجہ غلام فریدؒ۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس22۔ جلد چہارم) یعنی خواجہ نورمحمدمہارویؒ زیادہ تر پنجابی زبان بولتے تھے جبکہ بعض اوقات ہندوستانی زبان ۔ زیادہ تر پنجابی کیوں؟ اس لیے کہ ان کی اور اپنے علاقے کے جن لوگوں سے وہ گفتگو کررہے ہوتے تھے ان لوگوں کی زبان پنجابی (اس کی بولی ریاستی) تھی۔ جبکہ بعض اوقات اسی طرح ہندوستانی جیسے آج بھی دیس پنجاب کے لوگ پنجابی بولنے کیساتھ ساتھ اردو بھی بولتے ہیں۔ خواجہ غلام فریدؒ نے اپنے علاقے کی جس زبان کو پنجابی کہا ہے وہ کہیں ہوا میں تحلیل نہیں ہوگئی بلکہ اب بھی اسی طرح موجود ہے (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) اور بہاولپور کے لوگ آج بھی وہی زبان بولتے ہیں۔ خواجہ غلام فریدؒ اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ بھی یہی زبان بولتے تھے اور خواجہ غلام فریدؒ نے اسے پنجابی زبان قرار دیا ہے۔ خواجہ غلام فریدؒ نے جسے پنجابی زبان کہا ہے وہ دیس پنجاب کے باقی علاقوں کے علاوہ پوری (اب سابقہ) ریاست بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے شہروں اور دیہات میں بولی جاتی ہے۔ یوں خواجہ غلام فرید ؒنے اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی قراردیا ہے۔ لیکن کیا ”مقابیس المجالس“ میں کہیں پنجابی کے علاوہ کسی دوسری زبان یا بولی یا لہجے کا لفظ بھی موجود ہے؟ فارسی متن یعنی خواجہ غلام فریدؒ کے اصل ارشادات میں توخیر نہیں، نہ ہی آ سکتا تھا لیکن جعل سازی کے ذریعے کچھ نئے ترجموں میں پنجابی کو ہٹاکر دوسرے الفاظ کو ضرور داخل کردیا گیا ہے۔ یا کسی جگہ ترجمے میں خود سے کسی دوسری بولی یا لہجے کا لفظ اضافی لگادیا گیا ہے۔ ۔.۔۔۔۔ Hassan Rana *پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل.PGF Int*

 خواجہ غلام فرید ھوراں مقابلیس مجالس وچ آپنی تے آپنے مرشد دی زبان پنجابی بیان کیتی اے ، تے کسے اک جگہ تے کوئی چھوٹا جیہا اشارہ وی نئیں کیتا کہ اونھاں دی زبان یاں علاقہ پنجاب توں وکھ اے ، پتہ نئیں اج کئی عقل توں آنے سازشی کیوں اونھاں نوں پنجاب پنجابی توں وکھ لکھدے آکھدے نیں ؟؟؟


*پنجابی شاعر و صوفی حضرت خواجہ غلام فرید رح۔.

خواجہ غلام فرید رح کا عرس آج سے شروع ہے۔

خواجہ صاحب عظیم پنجابی شاعر و بزرگ ہیں۔*


خواجہ صاحب کے ارشادات و اشعار میں سے کچھ آپ دوست احباب کی نظر۔

بشکریہ کالم نگار و محقق اور ادیب جناب ازہر منیر صاحب۔

۔۔۔۔

مختصر:

خواجہ صاحب کے ارشادات مقابیس المجالس سے:

"حضرت قبلہ عالم نور محمد مہاری چشتیؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“

(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم)

اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔

اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں دیس پنجاب کا راجہ قرار دیا:

"عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی

ملک پنجاب دا راجہ"

(کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔)

مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ:

”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“

(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم)

اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ:

”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“

(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم)

،

"تتی تھی جوگن چودھار پھراں،

ہند، سندھ، پنجاب تے ماڑ پھراں،

سنج، بر تے شہر بزار پھراں،

متاں یار ملم کہیں سانگ سبب"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفصیل:

خواجہ غلام فریدؒ نے بھی ”مقابیس المجالس“ میں اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی ہی بیان کیا ہے۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں‘ واضح انداز میں۔

یہ کتاب خواجہ صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ یعنی وہ گفتگوئیں اور درس جو وہ اپنے مریدین کو ارشاد فرماتے تھے اور جو احاطہ تحریر میں آئے۔ مولانا رکن الدین پرہار سونکی نے ان ملفوظات کو فارسی زبان میں تحریر کیا جبکہ اس کا اردو ترجمہ کپتان واحد بخش سیال نے کیا۔

خواجہ صاحب علم و حکمت اور تصوف کے یہ درس پنجابی زبان (اس کی مقامی بولی) میں ارشاد فرماتے تھے جسے جیسا کہ صوفیائے کرام کے ملفوظات کو تحریر کرنے کے حوالے سے دستور رہا ہے‘ مولانا رکن الدین فارسی زبان میں تحریر کرتے تھے جسے خواجہ صاحب اگلے روز دیکھ کر اگر اس میں کہیں تصحیح کی ضرورت ہوتی تو کرتے تھے۔ چونکہ خواجہ صاحب کے سامعین میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی تھی جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے۔ یہ لوگ صرف مقامی زبان پنجابی سے واقف ہوتے تھے اور عربی‘ فارسی‘ ہندی یا اردو نہیں جانتے تھے اس لئے گفتگو یا درس کے دوران جب ان زبانوں میں سے کسی زبان کا کوئی ایسا لفظ آجاتا جس کے بارے میں خواجہ صاحب یہ خیال کرتے کہ ان کے سامعین اس کا مطلب نہیں جانتے ہوں گے تو وہ یہ لفظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا پنجابی ترجمہ بھی بیان کر دیتے۔ یہ کہہ کر کہ:

”جسے پنجابی میں…. کہتے ہیں۔“

خواجہ صاحب نے اس کتاب میں واضح طور پر اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی بیان کیا ہے۔ سو مولانا پرہار سونکی نے جب قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ جو مہاراں شریف کے رہنے والے تھے‘ کے بارے میں دریافت کیا کہ آپ کس زبان میں کلام فرماتے تھے تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ:

”آپؒ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاراں شریف میں بولی جاتی تھی۔“

(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 22۔ جلد چہارم)

اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاراں شریف میں رائج ہے اور مہاراں شریف ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔

اسی بنا پر خواجہ غلام فریدؒ نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کی شان میں جو کافی تحریر فرمائی اس میں انہیں پنجاب کا راجہ قرار دیا:

عرب وی تیڈی‘ عجم وی تیڈی

ملک پنجاب دا راجہ

(کافی نمبر 9۔ دیوان خواجہ فریدؒ۔ بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم۔ ترجمہ‘ تحقیق‘ تصحیح: (خواجہ طاہر محمود کوریجہ۔)

قابل ذکر امر یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے یہاں ”ملک پنجاب“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ملک پنجاب اور دیس پنجاب ‘ صوبہ پنجاب سے مختلف بات ہے۔ اس کا مطلب ہے:

”وہ تمام علاقہ جو چاہے کسی بھی صوبے یا ریاست کا حصہ ہو اور اس کے لوگ جو چاہے کسی بھی ریاست یا صوبے میں بستے ہوں مگر ان کی قومیت اور زبان پنجابی ہو۔ چاہے اس کی ماجھی بولی چاہے شاہ پوری چاہے جھنگوچی‘ چاہے پوٹھوہاری‘ چاہے ہندکو‘ چاہے چھاچھی، ملتانی بولی‘ چاہے ریاستی بولی اور چاہے کوئی اور بولی۔“

صوبے تو انتظامی ضروریات اور سیاسی مصلحتوں کے تخت بنتے‘ ٹوٹتے رہتے ہیں اس سے قومیت نہیں بدل جاتی۔ مثلاً انگریز سامراج کے دیس پنجاب پر قبضے کے وقت پنجابی سرفروشوں کی طرف سے ان کے خلاف کی جانے والی شدید مزاحمت اور بعد ازاں پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے برطانوی سرکار کے خلاف کی جانے والی مسلسل اور ایک کے بعد دوسری بغاوتوں اور سرفروشانہ کارروائیوں کا پنجابیوں سے بدلہ لینے کیلئے انگریزوں نے پنجابی بولنے والے متعدد اضلاع کو پنجاب سے کاٹ کر نئے بننے والے صوبہ سرحد میں شامل کردیا تاہم اس سے وہاں رہنے واے اصل پرانی پنجابی زبان و تہذیب کے باشندوں کی قومیت نہیں بدل سکتی بلکہ پنجابی ہی ہے۔ پنجابی کی مختلف بولیاں۔ چھاچھی‘ ہندکو‘ تھلوچی وغیرہ۔

خواجہ غلام فریدؒ نے ریاست بہاولپور کے علاقے مہاران شریف اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ کی زبان کو پنجابی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاگیا خواجہ غلام فریدؒ اپنے مریدین سے گفتگو یا درس کے دوران جب عربی، فارسی، ہندی یا اردو کا کوئی مشکل لفظ ادا کرتے تو حاضرین میں سے وہ لوگ جو یہ زبانیں نہیں جانتے تھے، انہیں سمجھانے کی خاطر اس لفظ کا پنجابی ترجمہ بھی بیان فرما دیتے تھے۔ مثلاً ”مقابیس المجاس“ (جلد چہارم) کے مقبوس 45 میں ایک عورت کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا اونٹ اس پر عاشق ہوگیا تھا اور عورت کے شوہر نے غیرت میں آکر اس اونٹ کو ہلاک کردیا تھا۔ خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ اس کے بعد اونٹ کا ڈھانچہ چلنے لگا اور وہ عورت جہاں ہوتی تھی وہاں جا پہنچتا تھا۔ واقعہ بیان کرنے کے دوران جب ڈھانچہ کا لفظ آیا تو خواجہ صاحب نے حاضرین کو اس کا مطلب سمجھانے کی خاطر بتایا کہ:

”جسے پنجابی زبان میں کرنگ کہتے ہیں۔“

(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 45 ۔ جلد چہارم)

اسی طرح اسی جلد کے مقبوس 113 میں مخرب کعبہ کی علامات بیان کرتے ہوئے جب کج رفتار کا لفظ آیا تو خواجہ صاحبؒ نے بتایا کہ:

”جسے پنجابی زبان میں پھڈا کہتے ہیں۔“

(خواجہ غلام فرید۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس 113 ۔ جلد چہارم)

خواجہ صاحبؒ نے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ پنجابی زبان کے لفظ ہیں اور ان کے لیے کہیں بھی کسی اور لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اس لیے کہ خواجہ صاحبؒ بجا طور پر اپنی زبان کو پنجابی سمجھتے اور بیان کرتے تھے اور اپنے علاقے کے جن لوگوں کے ساتھ وہ گفتگو کررہے یا درس ارشاد فرما رہے ہوتے تھے چونکہ ان کی زبان بھی پنجابی (اس کی بولی ریاستی) ہی تھی تو وہ اپنی اور ان کی مشترکہ زبان کو پنجابی کے علاوہ کسی اور نام سے کیوں پکارتے؟ اور اگر ان کی اور ان کے سامعین کی زبان پنجابی نہیں تھی تو وہ گفتگو اور درس کے دوران ادا کیے جانے والے عربی، فارسی یا ہندی کے الفاظ کا پنجابی ترجمہ کیوں بیان کرتے؟ یہ کہہ کر کہ:

”جسے پنجابی میں…….. کہتے ہیں۔“

اسی بناء پہ انہوں نے خواجہ نور محمد مہارویؒ کے بارے میں بتایا کہ:

”آپ اکثر وہ پنجابی زبان بولتے تھے جو علاقہ مہاران شریف میں بولی جاتی تھی۔“

یعنی پنجابی زبان کی وہ بولی جو مہاران شریف میں رائج ہے۔

اور خواجہ غلام فریدؒ کے مطابق خواجہ نورمحمد مہارویؒ اکثر پنجابی زبان کی وہ بولی تو بولتے ہی تھے جو مہاران شریف میں بولی جاتی ہے اس کے علاوہ خواجہ غلام فریدؒ ہی کے مطابق:

” بعض اوقات آپ ہندوستانی زبان میں کلام فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کے شیخ حضرت مولانا فخردہلوی قدس سرہ، کی زبان بھی ہندوستانی تھی۔“

(خواجہ غلام فریدؒ۔ مقابیس المجالس۔ مقبوس22۔ جلد چہارم)

یعنی خواجہ نورمحمدمہارویؒ زیادہ تر پنجابی زبان بولتے تھے جبکہ بعض اوقات ہندوستانی زبان ۔ زیادہ تر پنجابی کیوں؟ اس لیے کہ ان کی اور اپنے علاقے کے جن لوگوں سے وہ گفتگو کررہے ہوتے تھے ان لوگوں کی زبان پنجابی (اس کی بولی ریاستی) تھی۔ جبکہ بعض اوقات اسی طرح ہندوستانی جیسے آج بھی دیس پنجاب کے لوگ پنجابی بولنے کیساتھ ساتھ اردو بھی بولتے ہیں۔

خواجہ غلام فریدؒ نے اپنے علاقے کی جس زبان کو پنجابی کہا ہے وہ کہیں ہوا میں تحلیل نہیں ہوگئی بلکہ اب بھی اسی طرح موجود ہے (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) اور بہاولپور کے لوگ آج بھی وہی زبان بولتے ہیں۔ خواجہ غلام فریدؒ اور خواجہ نورمحمد مہارویؒ بھی یہی زبان بولتے تھے اور خواجہ غلام فریدؒ نے اسے پنجابی زبان قرار دیا ہے۔

خواجہ غلام فریدؒ نے جسے پنجابی زبان کہا ہے وہ دیس پنجاب کے باقی علاقوں کے علاوہ پوری (اب سابقہ) ریاست بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے شہروں اور دیہات میں بولی جاتی ہے۔ یوں خواجہ غلام فرید ؒنے اپنے علاقے کی زبان کو پنجابی قراردیا ہے۔

لیکن کیا ”مقابیس المجالس“ میں کہیں پنجابی کے علاوہ کسی دوسری زبان یا بولی یا لہجے کا لفظ بھی موجود ہے؟ فارسی متن یعنی خواجہ غلام فریدؒ کے اصل ارشادات میں توخیر نہیں، نہ ہی آ سکتا تھا لیکن جعل سازی کے ذریعے کچھ نئے ترجموں میں پنجابی کو ہٹاکر دوسرے الفاظ کو ضرور داخل کردیا گیا ہے۔ یا کسی جگہ ترجمے میں خود سے کسی دوسری بولی یا لہجے کا لفظ اضافی لگادیا گیا ہے۔ ۔.۔۔۔۔

Hassan Rana 

*پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل.PGF Int*







Comments

Popular posts from this blog

صوبائی زبانوں کو فوراَ نافذ اور قومی زبان کے لیے آئینی ترمیم کی جائے۔

Triple Role of Punjabi Is An Urge To Revive The Punjabi Nationalism.

The Rise of Punjabi Nationalism.