اے کوئی مدرسہ نئیں ، اسیں بحیثیت پاکستانی وحشی ، بیحس جانوراں توں وی بدتر ھو گئے آں ، سبھ توں تکلیف دین آلی گل اے وے کہ قوم لوط آلا فعل اونھاں جگہاں تے ھو ریا اے جتھے ایناں چیزاں دے حرام قابل سزا تے الله تعالیٰ دی ناراضگی تے دوزخ وچ جان دے بارے دسیا جاندا اے (مدرسے تے اسکول کالج یونیورسٹیاں) تے اے کم کرن آلے او نیں (ٹیچر ، لیکچرار ، پروفیسر ، مدرس ،قاری ، مفتی وغیرہ) جہڑے اے تلیم دیندے یاں تبلیغ کردے نیں ، کی اسیں بحیثیت پاکستانی ذہنی معذور ، تے مفلوج ھو گئے آں ؟؟؟ حکمراناں دی حرکتاں تے عوام سمیت پاکستان دی بری حالت تے بین کرن آلیو اے سب تہاڈی خموشی بیحسی دی رب سوہنے ولوں سزا اے تیار روو کوئی وڈا عذاب وی دور نئیں جے ایہو جئے ناسوراں نوں نتھ ناں پائی گئی .. «افضل پنجابی» پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل .PGF Int +++++++++++++++++++++++++++++++++++++ یہ مدینے کی نئی ریاست ہے مجھے یقیں ہے پرانی میں بھی یہی کچھ ہوتا ہوگا بس کیمرا نہیں تھا اس لئے بچ گئے۔ گزشتہ کل بروزجمعہ18 جون کی صبح فجر کے وقت، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نیوکیمپس کے ہاسٹل سے بائیس تئیس سال کا ایک نوجوان لڑکھڑاتا ہوا نکلا۔ پہلی نظر میں تو سیکورٹی والوں کو شک گزرا کہ شاید لڑکا نشے میں ہے اس لئے چلنے میں دشواری ہے۔ لیکن معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بچہ قائداعظم یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اس کا گینگ ریپ ہوا ہے۔بدنصیب بچہ (عمرعمیر) اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے فارغ اوقات میں ڈیلیوری بوائے کے طورپر مزدوری کرتاہے۔ بچے کو فوری طورپر پمز ہسپتال لے جایا گیا۔جہاں اسے ابتدائی طبی امداد کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کے اصرار پر فارغ کردیا گیا۔انتظامیہ کو یونیورسٹی کی بدنامی کا ڈر تھا لیکن متاثرہ بچے نے بدنامی کے ڈر سے خاموش رہنے کا مشورہ مسترد کردیا۔ انتظامیہ نے بچے کی تسلی کے لئے ڈسپلن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس خفیہ طور پر منعقد کرکے ابراہیم خان اور محمود اشرف کو ’معطل‘ کردیا۔بچے کے بیان کے مطابق تین چار لوگوں نے اس کا گینگ ریپ کیا ہے۔ مرکزی ملزم متعلقہ ہاسٹل کے ٹیوٹر کا سگا بھائی ہے جو وہاں غیرقانونی طورپر مقیم ہے۔اس یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ بھی موجود ہے لیکن وہ بھی یونیورسٹی کی بدنامی کے ڈر سے انتظامیہ کے ساتھ ملی ہوئی نظر آرہی ہے۔ بجائے اس کے، کہ انتظامیہ ملزموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ایک مظلوم بچے کی داد رسی کرے، اور اس طرح کے شرمناک واقعات کا ارادہ رکھنے والوں کے لئے عبرت کا سامان کرے، وہ یونیورسٹی کی نام نہاد نیک نامی کے لئے معاملہ کو دبانا چاہتی ہے۔بعض فون کالز سے تو ایسے لگ رہا ہے کہ انتظامیہ کی ہمدردی مظلوم بچے کی بجائے ریپ کرنے والے ملزموں کے ساتھ ہے، اور پمز میں ہونے والے طبی معائنہ کی رپورٹ میں بھی ردوبدل کی گئی ہے۔ اس سے قبل بھی اسلامی یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے سنگین واقعات ہوئے ہیں، جن میں متاثرین کی شکایات اور ویڈیو آڈیوثبوتوں کے بعد یونیورسٹی ہی کی انکوائری کمیٹیوں نے ملزموں کے خلاف سخت کاروائی کی سفارش کی ہے۔ انتظامیہ نے بجائے اپنی انکوائری کمیٹی کی سفارش کے مطابق مسئلہ حل کرنے کے، متاثرین کو تحفظ دیاہے اور جرائم میں مدد کی بنیاد پر سیکورٹی افسر محمد اسماعیل کو گریڈسولہ سے سترہ میں ترقی دی ہے۔ میرا آپ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی خاطر اس طرح کے ظلم پر خاموشی سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ متاثرہ بچے کا ویڈیو بیان بھی موجود ہے لیکن جب ویڈیو بن رہی تھی تو اس کو علم نہیں تھا، اور جب اس کو معلوم ہوا کہ ویڈیو بن رہی ہے تو اس نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس لئے ویڈیو پبلک نہیں کرسکتا لیکن بعض دوستوں کے تسلی کے لئے رازداری کی شرط پر شیرکرسکتاہوں۔ آپ اس سٹوری کو چلانے کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں۔ اس کی سچائی کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ مزید گزارش یہ ہے کہ مندرجہ ذیل نمبروں پر فون کرکے ان لوگوں سے واقعہ کی تفصیل پوچھیں تاکہ انتظامیہ کو احساس ہو، کہ یہ معاملہ دبانا مشکل ہے۔ بہت بہت شکریہ احسان حقانی ڈاکٹر معصوم یاسین زئی، ریکٹر اسلامی یونیورسٹی 03345252102 03003864565 قوی شاہ، پرسنل اسسٹنٹ ٹو ریکٹر 03335151849 ڈاکٹرایاز افسر Vice President Admin and Head Student Discipline Committee 03465469285 ڈاکٹر علی،(سعودی شہری اور صدرجامعہ کے دفتر کا انچارج 03090848888 Copied
اے کوئی مدرسہ نئیں ، اسیں بحیثیت پاکستانی وحشی ، بیحس جانوراں توں وی بدتر ھو گئے آں ،
سبھ توں تکلیف دین آلی گل اے وے کہ قوم لوط آلا فعل اونھاں جگہاں تے ھو ریا اے جتھے ایناں چیزاں دے حرام قابل سزا تے الله تعالیٰ دی ناراضگی تے دوزخ وچ جان دے بارے دسیا جاندا اے (مدرسے تے اسکول کالج یونیورسٹیاں) تے اے کم کرن آلے او نیں (ٹیچر ، لیکچرار ، پروفیسر ، مدرس ،قاری ، مفتی وغیرہ) جہڑے اے تلیم دیندے یاں تبلیغ کردے نیں ، کی اسیں بحیثیت پاکستانی ذہنی معذور ، تے مفلوج ھو گئے آں ؟؟؟
حکمراناں دی حرکتاں تے عوام سمیت پاکستان دی بری حالت تے بین کرن آلیو اے سب تہاڈی خموشی بیحسی دی رب سوہنے ولوں سزا اے تیار روو کوئی وڈا عذاب وی دور نئیں جے ایہو جئے ناسوراں نوں نتھ ناں پائی گئی ..
«افضل پنجابی»
پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل .PGF Int
+++++++++++++++++++++++++++++++++++++
یہ مدینے کی نئی ریاست ہے مجھے یقیں ہے پرانی میں بھی یہی کچھ ہوتا ہوگا بس کیمرا نہیں تھا اس لئے بچ گئے۔
گزشتہ کل بروزجمعہ18 جون کی صبح فجر کے وقت، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نیوکیمپس کے ہاسٹل سے بائیس تئیس سال کا ایک نوجوان لڑکھڑاتا ہوا نکلا۔ پہلی نظر میں تو سیکورٹی والوں کو شک گزرا کہ شاید لڑکا نشے میں ہے اس لئے چلنے میں دشواری ہے۔ لیکن معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بچہ قائداعظم یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اس کا گینگ ریپ ہوا ہے۔بدنصیب بچہ (عمرعمیر) اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے فارغ اوقات میں ڈیلیوری بوائے کے طورپر مزدوری کرتاہے۔
بچے کو فوری طورپر پمز ہسپتال لے جایا گیا۔جہاں اسے ابتدائی طبی امداد کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کے اصرار پر فارغ کردیا گیا۔انتظامیہ کو یونیورسٹی کی بدنامی کا ڈر تھا لیکن متاثرہ بچے نے بدنامی کے ڈر سے خاموش رہنے کا مشورہ مسترد کردیا۔ انتظامیہ نے بچے کی تسلی کے لئے ڈسپلن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس خفیہ طور پر منعقد کرکے ابراہیم خان اور محمود اشرف کو ’معطل‘ کردیا۔بچے کے بیان کے مطابق تین چار لوگوں نے اس کا گینگ ریپ کیا ہے۔ مرکزی ملزم متعلقہ ہاسٹل کے ٹیوٹر کا سگا بھائی ہے جو وہاں غیرقانونی طورپر مقیم ہے۔اس یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ بھی موجود ہے لیکن وہ بھی یونیورسٹی کی بدنامی کے ڈر سے انتظامیہ کے ساتھ ملی ہوئی نظر آرہی ہے۔
بجائے اس کے، کہ انتظامیہ ملزموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ایک مظلوم بچے کی داد رسی کرے، اور اس طرح کے شرمناک واقعات کا ارادہ رکھنے والوں کے لئے عبرت کا سامان کرے، وہ یونیورسٹی کی نام نہاد نیک نامی کے لئے معاملہ کو دبانا چاہتی ہے۔بعض فون کالز سے تو ایسے لگ رہا ہے کہ انتظامیہ کی ہمدردی مظلوم بچے کی بجائے ریپ کرنے والے ملزموں کے ساتھ ہے، اور پمز میں ہونے والے طبی معائنہ کی رپورٹ میں بھی ردوبدل کی گئی ہے۔
اس سے قبل بھی اسلامی یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے سنگین واقعات ہوئے ہیں، جن میں متاثرین کی شکایات اور ویڈیو آڈیوثبوتوں کے بعد یونیورسٹی ہی کی انکوائری کمیٹیوں نے ملزموں کے خلاف سخت کاروائی کی سفارش کی ہے۔ انتظامیہ نے بجائے اپنی انکوائری کمیٹی کی سفارش کے مطابق مسئلہ حل کرنے کے، متاثرین کو تحفظ دیاہے اور جرائم میں مدد کی بنیاد پر سیکورٹی افسر محمد اسماعیل کو گریڈسولہ سے سترہ میں ترقی دی ہے۔
میرا آپ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی خاطر اس طرح کے ظلم پر خاموشی سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔
متاثرہ بچے کا ویڈیو بیان بھی موجود ہے لیکن جب ویڈیو بن رہی تھی تو اس کو علم نہیں تھا، اور جب اس کو معلوم ہوا کہ ویڈیو بن رہی ہے تو اس نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس لئے ویڈیو پبلک نہیں کرسکتا لیکن بعض دوستوں کے تسلی کے لئے رازداری کی شرط پر شیرکرسکتاہوں۔
آپ اس سٹوری کو چلانے کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں۔ اس کی سچائی کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ مزید گزارش یہ ہے کہ مندرجہ ذیل نمبروں پر فون کرکے ان لوگوں سے واقعہ کی تفصیل پوچھیں تاکہ انتظامیہ کو احساس ہو، کہ یہ معاملہ دبانا مشکل ہے۔
بہت بہت شکریہ
احسان حقانی
ڈاکٹر معصوم یاسین زئی، ریکٹر اسلامی یونیورسٹی
03345252102
03003864565
قوی شاہ، پرسنل اسسٹنٹ ٹو ریکٹر
03335151849
ڈاکٹرایاز افسر
Vice President Admin and Head Student Discipline Committee
03465469285
ڈاکٹر علی،(سعودی شہری اور صدرجامعہ کے دفتر کا انچارج
03090848888
Copied
Comments
Post a Comment