A_GREAT_HERO_OF_PUNJAB_AND_FREEDOM_FIGHTER_OF_WAR_OF_FREEDOM_FOR_INDIA_1857_AGAINST_BRITISH_ARMY__ رائے احمد خان کھرل رائے احمد خان کھرل پنجابی قوم کے ایک عظیم مرد مجاھد تھے جنہوں نےجنگ آزادی ہند 1857 لڑی اور جام شہادت نوش فرمائی۔ رائے احمد خان کھرل دو بھائی تھے۔ 1-رائے عبدالوھاب خان کھرل 2-رائے احمد خان کھرل شہید والد کا نام: رائے نتھو خان کھرل والدہ: کموکا چدھڑ قبائلہ سے تھیں۔ جائے پیدائش/آبائی علاقہ: رائے احمد خان کھرل ساندل بار کے مشہور علاقہ جھامرا ضلع جھنگ کے رہائش پزیر تھے موجودہ لائل پور(فیصل آباد) پنجاب، پاکستان۔ کھرل قبیلہ، انڈیا راجستھان سے ہجرت کر کے آیا تھا ان میں سے کچھ نے ملتان اور ان کے آس پاس کے علاقوں میں سکونت اختیار کر لی اور کچھ کمالیہ کے علاقہ میں آگئے۔ کھرل ایک لڑاکا اور دلیر قوم ہے، اور ابتداء سے ہی کھرلوں نے اس علاقے میں کسی کی سرداری قبول نہیں کی۔ چاہے وہ کاٹھیا تھے، چاہے سکھ تھے، چاہے جو مرضی ہوتے،کھرل جٹوں نے کسی کی بھی سرداری کو قبول نہیں کیا۔اس لئے سکھ سرداروں نے کھرل اور ان کے آس پاس کے قبییلوں کے سرداروں سے بنا کر رکھی ہوئی تھی۔ رائےصالح خان کھرل کی وصیت: رائے احمد خان جب جوانی کی طرف جا رہے تھے تو اس وقت رائے احمد خان کھرل کو بلوایا گیا اور کہا گیا کہ میری اولاد میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ جو سرداری کی اس پگڑی اور دوسرے قبائل کے تعلقات کو سنبھال سکے لٰہذا یہ سرداری کی پگڑی آپ کے سپرد ہے۔ رائے احمد خان کی شخصیت: رائے احمد خان کھرل بہت ہی خوبصورت اور با رعب شخصیت کے مالک تھے۔ رائے احمد خان کھرل بہت زیادہ ذہین اور قابل تھے ان کی رنگت سرخ سفید تھی، چہرہ نورانی ،اور پانچ وقت کے نمازی تھے۔ راجہ رنجیت کے ساتھ بھائی بندی: زمین کی سانجھے داریاں، مذہب کی تفریق سے گہری تھیں سو نکئی سردار گیان سنگھ، خزان سنگھ اور بھگوان سنگھ، رائے صالح خان کھرل کو اپنا بھائی گردانتے تھے۔ گیان سنگھ کی بیٹی، رنجیت سنگھ کی بیوی راج کور بنی تو کھرلوں نے بھی ڈولی کو کاندھا دیا۔ سکھوں کے ساتھ کھرلوں کے تعلقات بھائی بندی کے تھے۔ اس بھائی بھائی چارے کے ہی تحت، کھرلوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر بہت سی جنگیں لڑی۔ افغانیوں کے خلاف جنگ میں بھی کھرل سکھوں کی فوج کے ساتھ تھے۔اورافغانیوں کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راجہ رنجیت سنگھ برسراقتدار ہوا تو اس کا معمول تھا کہ وہ قبائل کے سرداروں کے پاس ملنے جاتا۔ ایک دن راجہ رنجیت سیدانوالہ آیا۔تو راجہ رنجیت سنگھ نے رائے احمد خان کھرل کے بارے پوچھا کون ہے یہ شخص، کیسا ہے یہ شخص، تو اسے بتایا گیا کہ یہ رائے احمد خان کھرل ہیں۔ راجہ رنجیت سنگھ نے سرداروں کو ٹیکس دینے کو کہا۔ رائے احمد خان نے کہا:"ہم کسی کی حکومت برداشت نہیں کرتے، رعب اور دبدبہ سے ٹیکس لو گے تو نہیں ملنا۔اگر پیار سے چلو گے تو تمھارا ساتھ دینگے۔ اگر رعب دیکھاؤ گے، تو نامراد جاؤ گے اور نتائج جو بھی ہوں اس کی ہم کو پراوہ نہیں۔" راجہ رنجیت سنگھ رائے احمد خان کھرل کی طاقت اور قابلیت سے واقف ہو گیا اور آپ سے متاثر ہوا اور خوشی سے آگے بڑھا اور رائے احمد خان کو گلے لگا لیا اور کہا:" رائے صاحب!آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں، آپکو کوئی بھی مسئلہ ہو تو گھبرانہ نہیں۔" رائے احمد خان کھرل اور رنجیت سنگھ کی دوستی کا واقعہ ، اس کے بعد رائے احمد خان راجہ رنجیت کے پاس جاتے، راجہ رنجیت سنگھ اور رائے احمد خان کے بہت اچھے تعلقات دستوار ہو گئے۔ ایک دفعہ رائے صاحب، راجہ رنجیت سنگھ کو ملنے گئے تو راجہ رنجیت سنگھ کو بہت خوشی ہوئی اور رائے صاحب کو کہا: رائے صاحب آج آپ جو بھی تحفہ مانگو گے آپکو ملے گا، رائے صاحب نے راجہ رنجیت سنگھ سے کہا کہ وہ ان مسلمانوں کو چھوڑ دے جو ٹیکس نہیں دے پائے۔راجہ رنجیت سنگھ نے فورًا انکو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔ راجہ رنجیت سنگھ نے رائے صاحب سے چار ہزار روپے مانگے آپ نے اپنے خادم کو راجہ رنجیت سنگھ کی بیوی کے پاس بھیجا چار ہزار روپے منگوانے کو رنجیت سنگھ کی بیوی نے دے دیے اور آپ نے وہ چار ہزار روپے اس وقت کے راجہ رنجیت سنگھ کو دے دیے۔ راجہ رنجیت سنگھ اور رائے احمد خان کھرل کےتعلقات اس واقعات سے پتہ چلتے ہیں کہ رائے صاحب اور راجہ رنجیت سنگھ کے درمیان کتنا زیادہ بھائی چارہ تھا۔ گلاب سنگھ احمد خان کھرل کی بہت عزت کرتا تھا اکثر ملنے آجاتا تھا آپکو۔ ساندل بار کے سرداروں نے رائے صاحب سے بنا کر رکھنے اور ان کے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ رائے احمد خان کھرل پنجاب کے بادشاہ تھے ۔ قبائل میں کاٹھیے، کھچی جٹ، جویئہ جٹ،چدھڑ جٹ، اور اسکی ذیلی گوتیوں، کموکا چدھڑ جٹ، جپہ چدھڑ جٹ، سیال، اور اس ذیلی گوتوں کے لوگ اور ساہیوال کے ساہی اور ایک آرائیں قیبلہ کے سردار رائے احمد خان کی طاقت تھے جس نے راجہ رنجیت سنگھ کو بے بس کر دیا، کہ وہ اس طاقت کو سر تسلیم خم قبول کر لے اور ان جنگجو قبائل کے ساتھ بھائی چارے سے رہے۔ کیونکہ ساندل بار کے لوگ ہمیشہ سے ہی جنگجو، لڑاکے، حریت پسند رہے ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی سے پہلے، پرانا سید والا ایک منڈی کے طور پہ مشہور تھا۔ راوی کے اس پار گوگیرہ اور اس پار سید والہ جنس کی خرید و فروخت کے اہم مراکز تھے۔ آنے جانے والے قافلے یہاں رکا کرتے تھے۔ آزادی کی جنگ چھڑی تو یہاں کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی۔ جیالوں کا زور ٹوٹا تو حکمرانوں کا انتقام شروع ہوا۔ پھر اس قبرستان میں ایک کنوئیں پہ پھانسی گھاٹ بنایا گیا اور آزاد منش انسانوں کو تختہ کے حوالے کر کے دنیا سے آزاد کیا جاتا رہا۔ اب ریل جہاں رکتی ہے اور جہاں نہیں رکتی ان تمام اسٹیشنوں کے آس پاس کھرلوں اور ان کے حلیف قبائل کی کہانیاں ہیں۔ زمین کی بندر بانٹ، ضمیر کی تجارت، مخبریوں کے قصوں اور سمجھوتوں کی باتوں سے قطع نظر، اس جٹ بہادری کی کئی داستانیں تحریر کی ہیں۔ پنجاب کے حصول کی جنگ انگریزوں نے بہت سہج سہج کر لڑی۔ بھیرووال کے معاہدے سے لے کر لاہور میں جھنڈا لہرانے تک، مزاحمتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ تھا اور احمد خان کھرل کی جدوجہد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ پنجاب کیا گرا، بار کے باسیوں پہ قیامت ٹوٹ گئی۔ کچھ عرصے بعد ہندوستان میں سن ستاون ہو گیا۔ دلی اور میرٹھ میں جنگ کے شعلے بھڑکے تو بار میں بھی اس کی تپش محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے شورش سے بچنے کے لئے پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اس مقصد کے لئے جگہ جگہ جیل خانے بنائے اور باغیوں کا جوش ٹھنڈا کرنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ ایسی ہی ایک جیل گوگیرہ میں بھی بنی۔ سن ستاون کی پہلی گولی مئی میں چلی تھی۔ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نپٹنے کے لئے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛ ’’صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا‘‘ اور اس کے بعد واپس چلا آیا۔ یہاں سے کھرل اور حلیف قبائل اور انگریز کی جنگ کے آغاز کا سبب پیدا ہو گیا۔ رائے سرفراز خان کھرل اور بیدی سنگھ کی غداری: رائے صاحب نے لڑنے کا منصوبہ بنایا، تمام قبائل ،سیال اور اس کی ذیلی گوتوں،چدھڑ اور اس کی ذیلی گوتوں ، ساہی، جوئیہ، ٹوانہ، کھچی سرداروں سے ساتھ دینے کو کہا، سب لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے ۔رائے صاحب نے تمام سرداروں کے ساتھ مل کر جنگ بندی کی منصوبہ بندی بنائی کہ وہ دو، تین تک مل کر انگریز چھاونی پہ حملہ کر دینگے لیکن انگریز نے ٹیپو سلطان کی طرح یہاں بھی اپنوں کی غداری کو خرید لیا ا، رائے سرفراز نے تمام منصوبہ بندی انگریز کو بتا دی، انگریز نے بغیر کسی تاخیر کے جدید ہتھیاروں سے حملہ کر دیا اور کھرل اور دوسرے قبائل نے قلیل دیسی طرز کے ہتھیاروں کے ساتھ بہادری کے ساتھ سامنا کیا۔ سردار بیدی سنگھ اور اس کی فوجی ساتھی رائے احمد خان کو ڈھونڈ رہے تھے، رائے صاحب نے حالت جنگ میں بھی نماز نہ چھوڑی عصر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ بیدی سنگھ نے بتایا کہ وہ رہا رائے احمد خان کھرل۔سجدے کی حالت میں فائر کھول دیا اور ان کا سر قلم کر دیا گیا۔ بعد میں باقی قبائل نے رائے صاحب کا انتقام لیا اور بریکلے کو ھلاک کر دیا۔ میرے پیارے پنجابیو ! رائے احمد خان ہمارے ہیرو ہیں، لیکن پنجاب دشمنی کی مثال ہمارے پنجاب میں ہی ملتی ہے، پنجابیوں کے اس ہیرو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔کسی بھی نصاب کی کتاب میں رائے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھی قبائل کا ذکر نہیں ملتا جو کہ پنجابیوں پر ظلم ہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بھی رائے احمد خان کی دلیری کی بہت تعریف کی۔ مغلوں نے غلامی کی زنجیروں کو پسند کیا،اور رائے صاحب اور اس کی قبائل نے موت کو پسند کیا۔ مغل آزادی کیلئے داغ بن گئے اور کھرل اور اس کے حلیف قبائل شہادت کے شدائی بن گئے ۔ مغلوں کو پاکستان میں نصاب میں جگہ مل گئی اور جنگ آزادی کے ان سچے اور بہادر پنجابیوں کو نصاب میں کہیں جگہ نہیں ملی۔۔ یہ پنجاب دشمنی ہے۔میرے پنجابیو! رائے سرفراز، بیدی سنگھ، میر جعفر آج بھی زندہ ہے جو پنجاب، پنجاب کے ورثے ،اور ہیروز کو قطعاً پسند نہیں کرتے اور پنجاب اور پنجابی کو نقصان پہنچاتے رہتےبیں۔ جٹ ویرو! تسی گھٹوگھٹ اپنے ورثے نوں بچان دی کوشش کرو۔اپنے بچیاں نوں پنجاب دے ایناں بہادر ہیروز بارے دسیا کرو۔۔ پنجاب کی تمام بڑےپنجابی قبائل اور برادریوں: جٹ، گجر، کمبوہ، آرائیں، پنجابی راجپوت، ڈوگر، جو پنجاب کی روح رواں برادریں ہیں، پنجاب اور پنجابی ورثے اور کلچر کو بچانے اور فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، آپ کے علاوہ کوئی اور برادری پنجاب سے نہ مخلص ہے اور نہ ہی پنجابی زبان سے۔ شکریہ والسلام تدوین وتحریر: شہباز علی چدھڑ Rai Ahmed Khan Kharal was one of the greatest freedom fighters in the Indian rebellion of 1857. He was a resident of Sandal Bar's famous town Jhamra in Jhang District, currently in Faisalabad, Punjab (Pakistan). He started his rebellion in a wide area of Punjab (British India), Pakistan covering Ganji Bar, Neeli Bar and Sandal Bar area (an area between rivers Sutlej, Ravi River and Chenab covered with thick forests in past). The center of his movement was the town of Gogera which lies in the Neeli Bar area. A Punjab region Jatt Muslim, Rai Ahmed Khan Kharal was basically a landlord, owner of a reasonable/worth mentioning territory, he was leader of Kharal Tribe due to the prevailing injustice at that time, love for his motherland resulting differences with the rulers, he was a peace loving, landlord, with respectable status but created injustice made him the leader of the freedom fighters who carried out the famous Gogera insurrection. They also attacked the Gogera Central Jail and ensured the freedom of hundreds of freedom fighters who were kept there for actively taking part in the War of Independence 1857. These freedom fighters under the command of Rai Ahmed Khan Kharal were able to make vast part of their land totally free of the British Rule for at least three months. Their headquarters was at Kot Kamalia. Along with his companions Murad Fatiana, Shuja Bhadroo, and Mokha Wehniwal he killed Lord Burkley the Commissioner for Gogera. He united most of the List of Bari Tribes (Sial and its sub castes, Chadhar and its sub castes, Sahi, Khichi,Joyia,Wattu against British Empire rule and was finally killed in a battle with British forces defending his beloved motherland. After his death His head was taken along by the British soldiers, but snatched back by one of his loyal friends, the point to be noted was that after passing even months blood drops were coming out of his neck as fresh as it had happened just now. His efforts for the freedom of the homeland from British rule were also acknowledged by the last Moghul Emperor, Bahadur Shah II Zafar.. Before 1857 ,Rai Ahmad Khan Kharal and his girefathers had very good brotherly relation with Sikh. When Raja Ranjeet Singh was married to Ghayan Singh Nakai's Daughter, it was Kharal who shouldered the Palanquin of Raja Ranjeet Singh Newly Wife (Raj Kaur) and Daughter of Sardar Ghayan Singh Nakai. When Raja Ranjeet Singh and Rai Ahmad Khan Kharal met, Raja Ranjeet Singh was much impressed by Rai Ahmad Khan Kharal, and made Rai Ahmad Khan Kharal his younger brother. Once Rai Ahmad Khan went at Raja Ranjeet Singh's. Raja Ranjeet was very happy to see Rai Ahmad Khan Kharal and with joy, Raja said to Rai Ahmad Khan Kharal, "My dear brother, I wanna give you a precious gift, tell me what you want to take.." Rai Ahmad Khan Kharal demanded the freedom of Muslim prisoners who were unable to pay tax. Raja Ranjeet Singh ordered to release them at once. At this Raja Ranjeet Singh demanded booty from Rai Ahmad Khan Kharal. Rai Ahmad Khan Kharal sent a servant to Raja Ranjeet's wife to take four thousand rupees for Rai Sab. His wife gave four thousand rupees immediately to the servant ,Rai Ahmad Khan Kharal gave this money to Ranjeet Singh. This shows Rai Ahmad Khan Kharal and Raja Ranjeet had family relations with each other as big warrior Jatt tribes,Sial, Chadhar, Sahi, Joyia, Khichi and an Arain tribe Chief obeyed Rai Ahmed Khan Kharal. Rai Ahmad Khan was the King of Punjab along with Raja Ranjeet Singh, declared his younger brother. Rai Ahmad Khan Kharal is real hero of Punjab. I appeal to my Jatt brothers and other Punjabi brothers to promote these heroes and introduce them to their Children by telling them their tales of bravery. But unfortunately, in Pakistan due to baisness, rivalry and enemity against Punjab by the people of others Urdu speaking /Hindi speaking are promoting Mughals and Hindi/Urdu Speaking People who are not our real heroes, in syllabus but not these real Punjabi heroes. Dear Jatts, Gujjar, Kamboj, Dogar, Punjabi Rajput, Arain and Punjabis! Please, save punjab and punjab heritage. Compiled and Written by:Shahbaz Ali Chadhar PGF Int.پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل
A_GREAT_HERO_OF_PUNJAB_AND_FREEDOM_FIGHTER_OF_WAR_OF_FREEDOM_FOR_INDIA_1857_AGAINST_BRITISH_ARMY__
رائے احمد خان کھرل
رائے احمد خان کھرل پنجابی قوم کے ایک عظیم مرد مجاھد تھے جنہوں نےجنگ آزادی ہند 1857 لڑی اور جام شہادت نوش فرمائی۔
رائے احمد خان کھرل دو بھائی تھے۔
1-رائے عبدالوھاب خان کھرل
2-رائے احمد خان کھرل شہید
والد کا نام:
رائے نتھو خان کھرل
والدہ:
کموکا چدھڑ قبائلہ سے تھیں۔
جائے پیدائش/آبائی علاقہ:
رائے احمد خان کھرل ساندل بار کے مشہور علاقہ جھامرا ضلع جھنگ کے رہائش پزیر تھے موجودہ لائل پور(فیصل آباد) پنجاب، پاکستان۔
کھرل قبیلہ، انڈیا راجستھان سے ہجرت کر کے آیا تھا ان میں سے کچھ نے ملتان اور ان کے آس پاس کے علاقوں میں سکونت اختیار کر لی اور کچھ کمالیہ کے علاقہ میں آگئے۔
کھرل ایک لڑاکا اور دلیر قوم ہے، اور ابتداء سے ہی کھرلوں نے اس علاقے میں کسی کی سرداری قبول نہیں کی۔ چاہے وہ کاٹھیا تھے، چاہے سکھ تھے، چاہے جو مرضی ہوتے،کھرل جٹوں نے کسی کی بھی سرداری کو قبول نہیں کیا۔اس لئے سکھ سرداروں نے کھرل اور ان کے آس پاس کے قبییلوں کے سرداروں سے بنا کر رکھی ہوئی تھی۔
رائےصالح خان کھرل کی وصیت:
رائے احمد خان جب جوانی کی طرف جا رہے تھے تو اس وقت رائے احمد خان کھرل کو بلوایا گیا اور کہا گیا کہ میری اولاد میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ جو سرداری کی اس پگڑی اور دوسرے قبائل کے تعلقات کو سنبھال سکے لٰہذا یہ سرداری کی پگڑی آپ کے سپرد ہے۔
رائے احمد خان کی شخصیت:
رائے احمد خان کھرل بہت ہی خوبصورت اور با رعب شخصیت کے مالک تھے۔ رائے احمد خان کھرل بہت زیادہ ذہین اور قابل تھے ان کی رنگت سرخ سفید تھی، چہرہ نورانی ،اور پانچ وقت کے نمازی تھے۔
راجہ رنجیت کے ساتھ بھائی بندی:
زمین کی سانجھے داریاں، مذہب کی تفریق سے گہری تھیں سو نکئی سردار گیان سنگھ، خزان سنگھ اور بھگوان سنگھ، رائے صالح خان کھرل کو اپنا بھائی گردانتے تھے۔ گیان سنگھ کی بیٹی، رنجیت سنگھ کی بیوی راج کور بنی تو کھرلوں نے بھی ڈولی کو کاندھا دیا۔ سکھوں کے ساتھ کھرلوں کے تعلقات بھائی بندی کے تھے۔ اس بھائی بھائی چارے کے ہی تحت، کھرلوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر بہت سی جنگیں لڑی۔ افغانیوں کے خلاف جنگ میں بھی کھرل سکھوں کی فوج کے ساتھ تھے۔اورافغانیوں کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
راجہ رنجیت سنگھ برسراقتدار ہوا تو اس کا معمول تھا کہ وہ قبائل کے سرداروں کے پاس ملنے جاتا۔
ایک دن راجہ رنجیت سیدانوالہ آیا۔تو راجہ رنجیت سنگھ نے رائے احمد خان کھرل کے بارے پوچھا کون ہے یہ شخص، کیسا ہے یہ شخص، تو اسے بتایا گیا کہ یہ رائے احمد خان کھرل ہیں۔
راجہ رنجیت سنگھ نے سرداروں کو ٹیکس دینے کو کہا۔
رائے احمد خان نے کہا:"ہم کسی کی حکومت برداشت نہیں کرتے، رعب اور دبدبہ سے ٹیکس لو گے تو نہیں ملنا۔اگر پیار سے چلو گے تو تمھارا ساتھ دینگے۔ اگر رعب دیکھاؤ گے، تو نامراد جاؤ گے اور نتائج جو بھی ہوں اس کی ہم کو پراوہ نہیں۔"
راجہ رنجیت سنگھ رائے احمد خان کھرل کی طاقت اور قابلیت سے واقف ہو گیا اور آپ سے متاثر ہوا اور خوشی سے آگے بڑھا اور رائے احمد خان کو گلے لگا لیا اور کہا:" رائے صاحب!آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں، آپکو کوئی بھی مسئلہ ہو تو گھبرانہ نہیں۔"
رائے احمد خان کھرل اور رنجیت سنگھ کی دوستی
کا واقعہ ،
اس کے بعد رائے احمد خان راجہ رنجیت کے پاس جاتے، راجہ رنجیت سنگھ اور رائے احمد خان کے بہت اچھے تعلقات دستوار ہو گئے۔ ایک دفعہ رائے صاحب، راجہ رنجیت سنگھ کو ملنے گئے تو راجہ رنجیت سنگھ کو بہت خوشی ہوئی اور رائے صاحب کو کہا: رائے صاحب آج آپ جو بھی تحفہ مانگو گے آپکو ملے گا، رائے صاحب نے راجہ رنجیت سنگھ سے کہا کہ وہ ان مسلمانوں کو چھوڑ دے جو ٹیکس نہیں دے پائے۔راجہ رنجیت سنگھ نے فورًا انکو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔
راجہ رنجیت سنگھ نے رائے صاحب سے چار ہزار روپے مانگے آپ نے اپنے خادم کو راجہ رنجیت سنگھ کی بیوی کے پاس بھیجا چار ہزار روپے منگوانے کو رنجیت سنگھ کی بیوی نے دے دیے اور آپ نے وہ چار ہزار روپے اس وقت کے راجہ رنجیت سنگھ کو دے دیے۔
راجہ رنجیت سنگھ اور رائے احمد خان کھرل کےتعلقات اس واقعات سے پتہ چلتے ہیں کہ رائے صاحب اور راجہ رنجیت سنگھ کے درمیان کتنا زیادہ بھائی چارہ تھا۔
گلاب سنگھ احمد خان کھرل کی بہت عزت کرتا تھا اکثر ملنے آجاتا تھا آپکو۔ ساندل بار کے سرداروں نے رائے صاحب سے بنا کر رکھنے اور ان کے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ رائے احمد خان کھرل پنجاب کے بادشاہ تھے ۔
قبائل میں کاٹھیے، کھچی جٹ، جویئہ جٹ،چدھڑ جٹ، اور اسکی ذیلی گوتیوں، کموکا چدھڑ جٹ، جپہ چدھڑ جٹ، سیال، اور اس ذیلی گوتوں کے لوگ اور ساہیوال کے ساہی اور ایک آرائیں قیبلہ کے سردار رائے احمد خان کی طاقت تھے جس نے راجہ رنجیت سنگھ کو بے بس کر دیا، کہ وہ اس طاقت کو سر تسلیم خم قبول کر لے اور ان جنگجو قبائل کے ساتھ بھائی چارے سے رہے۔ کیونکہ ساندل بار کے لوگ ہمیشہ سے ہی جنگجو، لڑاکے، حریت پسند رہے ہیں۔
1857 کی جنگ آزادی سے پہلے، پرانا سید والا ایک منڈی کے طور پہ مشہور تھا۔ راوی کے اس پار گوگیرہ اور اس پار سید والہ جنس کی خرید و فروخت کے اہم مراکز تھے۔ آنے جانے والے قافلے یہاں رکا کرتے تھے۔ آزادی کی جنگ چھڑی تو یہاں کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی۔
جیالوں کا زور ٹوٹا تو حکمرانوں کا انتقام شروع ہوا۔ پھر اس قبرستان میں ایک کنوئیں پہ پھانسی گھاٹ بنایا گیا اور آزاد منش انسانوں کو تختہ کے حوالے کر کے دنیا سے آزاد کیا جاتا رہا۔
اب ریل جہاں رکتی ہے اور جہاں نہیں رکتی ان تمام اسٹیشنوں کے آس پاس کھرلوں اور ان کے حلیف قبائل کی کہانیاں ہیں۔ زمین کی بندر بانٹ، ضمیر کی تجارت، مخبریوں کے قصوں اور سمجھوتوں کی باتوں سے قطع نظر، اس جٹ بہادری کی کئی داستانیں تحریر کی ہیں۔
پنجاب کے حصول کی جنگ انگریزوں نے بہت سہج سہج کر لڑی۔ بھیرووال کے معاہدے سے لے کر لاہور میں جھنڈا لہرانے تک، مزاحمتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ تھا اور احمد خان کھرل کی جدوجہد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
پنجاب کیا گرا، بار کے باسیوں پہ قیامت ٹوٹ گئی۔ کچھ عرصے بعد ہندوستان میں سن ستاون ہو گیا۔ دلی اور میرٹھ میں جنگ کے شعلے بھڑکے تو بار میں بھی اس کی تپش محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے شورش سے بچنے کے لئے پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اس مقصد کے لئے جگہ جگہ جیل خانے بنائے اور باغیوں کا جوش ٹھنڈا کرنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ ایسی ہی ایک جیل گوگیرہ میں بھی بنی۔
سن ستاون کی پہلی گولی مئی میں چلی تھی۔ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نپٹنے کے لئے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛
’’صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا‘‘ اور اس کے بعد واپس چلا آیا۔
یہاں سے کھرل اور حلیف قبائل اور انگریز کی جنگ کے آغاز کا سبب پیدا ہو گیا۔
رائے سرفراز خان کھرل اور بیدی سنگھ کی غداری:
رائے صاحب نے لڑنے کا منصوبہ بنایا، تمام قبائل ،سیال اور اس کی ذیلی گوتوں،چدھڑ اور اس کی ذیلی گوتوں ، ساہی، جوئیہ، ٹوانہ، کھچی سرداروں سے ساتھ دینے کو کہا، سب لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے ۔رائے صاحب نے تمام سرداروں کے ساتھ مل کر جنگ بندی کی منصوبہ بندی بنائی کہ وہ دو، تین تک مل کر انگریز چھاونی پہ حملہ کر دینگے لیکن انگریز نے ٹیپو سلطان کی طرح یہاں بھی اپنوں کی غداری کو خرید لیا ا، رائے سرفراز نے تمام منصوبہ بندی انگریز کو بتا دی، انگریز نے بغیر کسی تاخیر کے جدید ہتھیاروں سے حملہ کر دیا اور کھرل اور دوسرے قبائل نے قلیل دیسی طرز کے ہتھیاروں کے ساتھ بہادری کے ساتھ سامنا کیا۔
سردار بیدی سنگھ اور اس کی فوجی ساتھی رائے احمد خان کو ڈھونڈ رہے تھے، رائے صاحب نے حالت جنگ میں بھی نماز نہ چھوڑی عصر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ بیدی سنگھ نے بتایا کہ وہ رہا رائے احمد خان کھرل۔سجدے کی حالت میں فائر کھول دیا اور ان کا سر قلم کر دیا گیا۔
بعد میں باقی قبائل نے رائے صاحب کا انتقام لیا اور بریکلے کو ھلاک کر دیا۔
میرے پیارے پنجابیو !
رائے احمد خان ہمارے ہیرو ہیں، لیکن پنجاب دشمنی کی مثال ہمارے پنجاب میں ہی ملتی ہے، پنجابیوں کے اس ہیرو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔کسی بھی نصاب کی کتاب میں رائے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھی قبائل کا ذکر نہیں ملتا جو کہ پنجابیوں پر ظلم ہے۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بھی رائے احمد خان کی دلیری کی بہت تعریف کی۔ مغلوں نے غلامی کی زنجیروں کو پسند کیا،اور رائے صاحب اور اس کی قبائل نے موت کو پسند کیا۔ مغل آزادی کیلئے داغ بن گئے اور کھرل اور اس کے حلیف قبائل شہادت کے شدائی بن گئے ۔
مغلوں کو پاکستان میں نصاب میں جگہ مل گئی اور جنگ آزادی کے ان سچے اور بہادر پنجابیوں کو نصاب میں کہیں جگہ نہیں ملی۔۔ یہ پنجاب دشمنی ہے۔میرے پنجابیو! رائے سرفراز، بیدی سنگھ، میر جعفر آج بھی زندہ ہے جو پنجاب، پنجاب کے ورثے ،اور ہیروز کو قطعاً پسند نہیں کرتے اور پنجاب اور پنجابی کو نقصان پہنچاتے رہتےبیں۔ جٹ ویرو! تسی گھٹوگھٹ اپنے ورثے نوں بچان دی کوشش کرو۔اپنے بچیاں نوں پنجاب دے ایناں بہادر ہیروز بارے دسیا کرو۔۔
پنجاب کی تمام بڑےپنجابی قبائل اور برادریوں: جٹ، گجر، کمبوہ، آرائیں، پنجابی راجپوت، ڈوگر، جو پنجاب کی روح رواں برادریں ہیں، پنجاب اور پنجابی ورثے اور کلچر کو بچانے اور فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، آپ کے علاوہ کوئی اور برادری پنجاب سے نہ مخلص ہے اور نہ ہی پنجابی زبان سے۔
شکریہ والسلام
تدوین وتحریر: شہباز علی چدھڑ
Rai Ahmed Khan Kharal was one of the greatest freedom fighters in the Indian rebellion of 1857. He was a resident of Sandal Bar's famous town Jhamra in Jhang District, currently in Faisalabad, Punjab (Pakistan). He started his rebellion in a wide area of Punjab (British India), Pakistan covering Ganji Bar, Neeli Bar and Sandal Bar area (an area between rivers Sutlej, Ravi River and Chenab covered with thick forests in past). The center of his movement was the town of Gogera which lies in the Neeli Bar area.
A Punjab region Jatt Muslim, Rai Ahmed Khan Kharal was basically a landlord, owner of a reasonable/worth mentioning territory, he was leader of Kharal Tribe due to the prevailing injustice at that time, love for his motherland resulting differences with the rulers, he was a peace loving, landlord, with respectable status but created injustice made him the leader of the freedom fighters who carried out the famous Gogera insurrection. They also attacked the Gogera Central Jail and ensured the freedom of hundreds of freedom fighters who were kept there for actively taking part in the War of Independence 1857. These freedom fighters under the command of Rai Ahmed Khan Kharal were able to make vast part of their land totally free of the British Rule for at least three months.
Their headquarters was at Kot Kamalia. Along with his companions Murad Fatiana, Shuja Bhadroo, and Mokha Wehniwal he killed Lord Burkley the Commissioner for Gogera. He united most of the List of Bari Tribes (Sial and its sub castes, Chadhar and its sub castes, Sahi, Khichi,Joyia,Wattu against British Empire rule and was finally killed in a battle with British forces defending his beloved motherland. After his death His head was taken along by the British soldiers, but snatched back by one of his loyal friends, the point to be noted was that after passing even months blood drops were coming out of his neck as fresh as it had happened just now. His efforts for the freedom of the homeland from British rule were also acknowledged by the last Moghul Emperor, Bahadur Shah II Zafar..
Before 1857 ,Rai Ahmad Khan Kharal and his girefathers had very good brotherly relation with Sikh.
When Raja Ranjeet Singh was married to Ghayan Singh Nakai's Daughter, it was Kharal who shouldered the Palanquin of Raja Ranjeet Singh Newly Wife (Raj Kaur) and Daughter of Sardar Ghayan Singh Nakai.
When Raja Ranjeet Singh and Rai Ahmad Khan Kharal met, Raja Ranjeet Singh was much impressed by Rai Ahmad Khan Kharal, and made Rai Ahmad Khan Kharal his younger brother.
Once Rai Ahmad Khan went at Raja Ranjeet Singh's. Raja Ranjeet was very happy to see Rai Ahmad Khan Kharal and with joy, Raja said to Rai Ahmad Khan Kharal, "My dear brother, I wanna give you a precious gift, tell me what you want to take.."
Rai Ahmad Khan Kharal demanded the freedom of Muslim prisoners who were unable to pay tax. Raja Ranjeet Singh ordered to release them at once.
At this Raja Ranjeet Singh demanded booty from Rai Ahmad Khan Kharal.
Rai Ahmad Khan Kharal sent a servant to Raja Ranjeet's wife to take four thousand rupees for Rai Sab. His wife gave four thousand
rupees immediately to the servant ,Rai Ahmad Khan Kharal gave this money to Ranjeet Singh.
This shows Rai Ahmad Khan Kharal and Raja Ranjeet had family relations with each other as big warrior Jatt tribes,Sial, Chadhar, Sahi, Joyia, Khichi and an Arain tribe Chief obeyed Rai Ahmed Khan Kharal.
Rai Ahmad Khan was the King of Punjab along with Raja Ranjeet Singh, declared his younger brother.
Rai Ahmad Khan Kharal is real hero of Punjab.
I appeal to my Jatt brothers and other Punjabi brothers to promote these heroes and introduce them to their Children by telling them their tales of bravery.
But unfortunately, in Pakistan due to baisness, rivalry and enemity against Punjab by the people of others Urdu speaking /Hindi speaking are promoting Mughals and Hindi/Urdu Speaking People who are not our real heroes, in syllabus but not these real Punjabi heroes.
Dear Jatts, Gujjar, Kamboj, Dogar, Punjabi Rajput, Arain and Punjabis!
Please, save punjab and punjab heritage.
Compiled and Written by:Shahbaz Ali Chadhar
PGF Int.پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل
Comments
Post a Comment