جی ایم سید کی زندگی اور سیاست کا ایک تنقیدی جائزہ +++++++++++++++++++++++++++++++++++++ جی ایم سید کانگریسی جی ایم سید مسلم لیگی جی ایم سید قوم پرست
جی ایم سید کی زندگی اور سیاست کا ایک تنقیدی جائزہ
+++++++++++++++++++++++++++++++++++++
جی ایم سید کانگریسی
جی ایم سید مسلم لیگی
جی ایم سید قوم پرست
جی ایم سید کی کانگریس میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں ملتی عمومی اور عام کارکن کا تاثر ملتا ھے
جی ایم سید کی مسلم لیگ میں قابل ذکر کارکردگی ملتی ھے سندھ اسمبلی میں پاکستان کیلئے قرارداد منظور کروانے میں ان کا کلیدی کردار رہا ، لیکن مسلم لیگ میں بھی جی ایم سید کوئی قابل ذکر مقام نہ بنا پائے جبکہ انھوں نے بحیثیت مسلم لیگی ایک مسلم قوم پرست کا تاثر بھی دینے کی کوشش کی اور منزل گاہ سکھر کے واقعہ میں ھندو سماٹ سندھیوں کے قتل عام میں بھر پور طریقے سے ملوث ھوئے اور بعد میں سوانح حیات میں اس کا ذکر اور معافی بھی مانگی کیونکہ ایک سندھی قوم پرست کا تاثر دینے کیلئے اس سندھی قتل عام کا داغ دھونا اشد ضروری تھا
جی ایم سید بحیثیت قوم پرست بھی ناکام ھوئے کیونکہ قوم پرست وہ ھوتا ھے جو اپنی جان مال اور عزت کی حفاظت کے ساتھ قوم کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کرے ، جی ایم سید سندھی قوم کے مفادات جان مال اور عزت کی حفاظت میں بھی ناکام رھے البتہ اپنے شاہ سیدوں اور کرد نزاد کے مفادات اور جان مال کا تحفظ بخوبی کرتے رھے چونکہ وہ خود بنیادی طور پر سندھی نہیں تھے اسلئے وہ ایک سچے کھرے سندھی قوم پرست نہ بن سکے ، اور سندھ کی دھرتی کو جو کبھی امن بھائی چارے سندھی مہمان نوازی عفو و در گزر کیلئے مثال تھی کو عصبیت لسانیت اور علاقائیت کی دلدل میں دھکیل گئے اور اسٹیبلشمنٹ ، بیوروکریسی آور فوج کا بہانہ بنا کر معصوم اور بھولے بھالے سندھیوں کو پنجاب اور پنجابی کے لسانی و عصبی آگ میں جھونک دیا سندھی چونکہ سید اور شاہ کو نبی کریم کی نسبت سے بہت محترم اور عظیم سمجھتے تھے اس لئے بغیر تحقیق اور زمینی حقائق کو دیکھے ان کی جلائی لسانیت عصبیت کی آگ میں شامل ھو گئے ، پاکستان بننے سے سن نوے کی پوری دھائی تک کا اگر اسٹیبلشمنٹ ، بیوروکریسی آور فوج کی فیصلہ کن اور کمانڈنگ پوزیشنوں کا رکارڈ نکالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ھے کہ اس تمام عرصے میں ان تینوں اداروں اور محکموں میں ان تمام پوزیشنوں پر ھندی بولنے والے مہاجر اور پٹھان قابض رھے اور وہی سارے بلنڈر اور فیصلے کرتے رھے جو پنجاب اور پنجابی کے کھاتے میں ڈال کر جی ایم سید اور دوسرے پٹھان بلوچ مہاجر قوم پرست لسانیت اور عصبیت کا گھناونا کھیل کھیلتے رھے ،
کیا جی ایم سید و دیگر اسٹیبلشمنٹ بیوروکریسی آور فوج کی کمانڈنگ پوزیشنوں پر موجود غیر پنجابیوں اور ان کے بلنڈرز سے لاعلم تھے ؟؟ یقینا نہیں بلکہ یہ ایک منظم اور مربوط کاروائی تھی جس میں اس پورے دورانیہ کی اسٹیبلشمنٹ بیوروکریسی اور سیاسی جرنیل ملوث تھے اور مقصد صرف ایک تھا وہ یہ کہ انڈس سولائیزیشن کی قوموں کو جو کہ اس خطے کی قدیم قومیں اور اکثریت ھیں کو تقسیم کرکے لڑا کر اپنا اقتدار اور قبضہ گیری پکی کر سکیں ،
سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ھے کہ پاکستان بننے سے پہلے تک ہزاروں سال اکٹھی پیار محبت اور امن آتشی کے ساتھ رہنے والی پنجابی سندھی اور براہوی قوموں میں یہ لسانیت عصبیت اور علاقائیت کا زہر اچانک کیسے آگیا.
کیونکہ ان ہزاروں سالوں میں یہ قبضہ اور پناہ گیر ان قوموں پر بحیثیت حکمران وڈیرے اور پیر مسلط نہ تھے
سچے اور کھرے سید اور شاہ تھے بلھے شاہ ، شاہ عبدالطیف بھٹائی ، واٹ شاہ جیسے عظیم صوفی اور بزرگ تھے جو جوڑتے تھے دلوں کو قریب کرتے اور محبتیں بانتے تھے
لیکن پھر یہاں کے لوگوں کی سیدوں سے محبت اور عقیدت اور لگاؤ دیکھ کرکے ایسے لوگ بھی سید اور شاہ بنے جنھیں شاید سادات ، سید اور شاہ کی معنی بھی پتہ نہیں تھے اور یہ ھی لوگ یہاں نفرت لسانیت عصبیت اور علاقائیت کی بانی اور سرپرستی کرنے والے بنے ، اور اصل سیدوں اور سادات کیلئے باعث شرم بن گئے .
جی - ایم سید نے سندھی قوم کو پنجابی قوم کے ساتھ محاذ آرائی میں پھنسایا۔
سندھ کے اصل باشندے سماٹ ھیں اس لیے جی ایم سید سندھی قوم پرست رھنما نہیں بلکہ مفاد پرست اور موقع پرست شخص تھا۔ دیہی سندھ کے معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابی آبادکار جو 1901 اور 1932 سے دیہی سندھ میں زراعت ' صنعت ' تجارت کے کاروبار کے فروغ ' صحت اور تعلیم کے شعبوں کی ترقی کے لیے اپنی خدمات پیش کر رھے تھے۔ ان کو دیہی سندھ سے نکال کر انکی زمینوں اور کاروبار پر قبضہ کرنا جی ایم سید اور ان کے اسٹیبلشمنٹ بیوروکریسی اور سیاسی فوجی حلیفوں کا مشن تھا۔
معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابی آبادکاروں کو دیہی سندھ سے بے دخل کروا کر انکے کاروبار اور آباد زرعی زمینوں پر سید اور بلوچ جاگیرداروں کے قبضے کروانے کے ساتھ ساتھ سماٹ سندھیوں پر بھی سید اور بلوچ جاگیرداروں کا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کروا کر ' جی - ایم سید اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رھا۔ لیکن اس عمل کے ذریعے جی ایم سید نے معصوم سندھی قوم کو پنجابی کے ساتھ مستقل محاذ آرائی میں پھنسا دیا۔ جبکہ سندھ کے شہری علاقوں پر ھندوستانی مھاجروں کا تسلط بھی قائم کروا دیا۔
ماضی میں جی ایم سید کے سندھ کے پنجابی آبادکاروں کے خلاف گھناؤنے کردار کی وجہ سے 1901 اور 1932 کی دھائیوں سے سندھ میں آباد معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابیوں کے 1970 اور 1980 کی دھائیوں میں اپنے کاروبار اور آباد زرعی زمینیں سیدوں اور بلوچوں کو سونپ کر پنجاب واپس آنے کی وجہ سے سندھی قوم کے ساتھ پنجاب اور پنجابی قوم کے تنازعات پیدا ھوگئے تھے۔ انہیں حل کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو ' پیر پگارو ' محمد خان جونیجو ' غلام مصطفی جتوئی اور بے نظیر بھٹو سندھیوں کے لیے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ذریعہ رھے لیکن سندھ سے معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابیوں کو بیدخل کردیے جانے کی وجہ سے سندھ کے سید اور بلوچ جاگیرداروں اور وڈیروں کے ساتھ پنجابی قوم کے اختلافات کو مکمل طور پر ختم نہ کروا سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو' پیر پگارو' محمد خان جونیجو ' غلام مصطفی جتوئی اور بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد اب موثر سماجی رابطوں اور سیاسی واسطوں کے نہ ھونے کی وجہ سے جبکہ جی ایم سید کے سندھ کے پنجابی آبادکاروں کے خلاف گھناؤنے کردار کی وجہ سے سندھ میں پیدا ھونے والے ماحول کے ابھی تک سندھ میں موجود ھونے کی وجہ سے پنجاب کا سندھ کے سید اور بلوچ وڈیروں کے ساتھ لاتعلقی کا رویہ ابھی تک برقرار ھے۔ سندھ کے اصل باشندے سماٹ اب کھل کر پنجاب اور پنجابی کیلئے بولنے لگے ھیں جس سے یہ امید روشن ھو رھی ھے کہ ہزاروں سال محبت امن آتشی کے ساتھ اکٹھے رہنے والی سپتہ سندھو کی یہ بڑی قومیں دوبارہ پھر محبت امن آتشی کے ساتھ رہنے لگیں گی اور تقسیم کرو لڑاؤ اور حکومت کرو کا فارمولہ استعمال کرنے والوں کو نہ صرف ان کی اوقات میں رکھیں گے بلکہ قبضہ گیری اور حکمرانی کا ان کا منصوبہ بھی خاک میں ملا دیں گے .
سندھ کے شہری علاقوں پر غالب اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ سندھیوں کا سماجی ٹکراؤ اور انتظامی ' معاشی ' اقتصادی ' ترقیاتی امور کی وجہ سے سیاسی اختلاف ماضی میں بھی تھا اور اب بھی ھے اور مستقبل میں بھی رھنا ھے۔ جبکہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60 فیصد آبادی ھے۔ پنجاب کی پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں پر مکمل بالادستی ھے۔ اس لیے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ختم ھونا ' پنجاب کا سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کا باعث اور سندھیوں کے لیے قومی تنہائی کا سبب بنتا جا رھا تھا جو امید ھے نہیں ھوگا ۔
سندھیوں کے پنجاب کی عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کے ختم ھونے اور پنجابی قوم کے سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کے باعث اب مستقبل میں سندھیوں کو پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں میں وہ عزت ' اھمیت اور سہولت باہمی اعتماد سازی اور پرانے رویوں کی مکمل اور انفرادی سطح سے بلند ھو کر قومی سطح پر اصل سندھیوں کی طرف بحالی پر منحصر ھے ، اور یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجابی اور سندھی سپتہ سندھو کی دونوں بڑی قومیں براہوی سمیت ایک دوسرے سے قدرتی طور پر دوسروں کی نسبت جلدی متاثر میل جول بڑھا لیتے ھیں صرف دلوں سے مفاد پرستوں کی طرف عصبیت لسانیت اور علاقائیت کا میل اترنے کی دیر ھے ...
«افضل پنجابی»
*PNF SINDH*
Comments
Post a Comment