سندھ بدر ھونے والے پنجابیوں کی آپ بیتی
سندھ بدر ھون والے اک پنجابی خاندان دی جگ بیتی ، ایس طراں دے لکھاں خاندان پنجابیاں دے اغوا برائے تاوان جائیداداں تے قبضے تے قتل دیاں وارداتاں دے کارن اوس وقت سندھ بدر ھوئے جدوں سندھ دی دھرتی پنجابیاں لئی کربلا بنی ھوئی سی ، سندھ بدر ھون والے سارے پنجابیاں نوں بنتی اے کہ او آپنی جگ بیتی لکھ کے یاں صرف آپنا پورا تعارف تے گوٹھ علاقے دا ناں تے سندھ بدر ھون دا کارن لکھ کے مینوں انباکس کردین اسیں آپنے سندھ بدر ھوئے پنجابیاں دا ڈیٹا جمع کر رئے آں کہ اج دی نسل نوں پتہ چلے کہ پنجابی سندھ وچ کہڑے کہڑے ظلم دا شکار ھوئے ..( افضل پنجابی زونل آرگنائیزر سندھ زون )
*ندیم دی جگ بیتی*
++++++++++++
میرا بچپن سندھ کے ضلع گھوٹکی کے ایک دور افتادہ علاقعہ نواں روڈ پر کچے کے علاقے میں ایک پسماندہ گاؤں جہاں پر تمام لوگ پنجابی تھے وہاں پر گزرا
جسے پنجابیوں کی گوٹھ بھی کہا جاتا تھا گوٹھ کا نام چوھدری منور آرائیں صوبیدار کے نام پر تھا چوھدری منور آرائیں صوبیدار میرے چچا تھے
وہاں میرے چچا کی ساڑھے بارہ ایکڑ زرعی زمین تھی جس کی دیکھ بھال میرے ابو کیا کرتے تھے
اس زمین میں دو ایکڑ کا مچھلی فارم بھی تھا امرود اور لیموں کے باغات بھی تھے ھمارا گاوں بہت خوبصورت تھا
سب پنجابیوں کے بڑے بڑے گھر تھے گھر کچے تھے لیکن صاف ستھرے تھے گلیاں بھی صاف اور کشادہ تھیں سب کے پاس مال مویشی تھے تقریباً سب کی زمینیں تھیں
لوگوں میں بہت پیار و محبت تھا نواں روڈ ایک چھوٹا سا بس اسٹاپ تھا جہاں پر ایک دو بسیں وقت کے مطابق رکتی تھیں
نواں روڈ اسٹاپ سے میرے گاؤں کے لیے ٹانگے چلتے تھے یا پھر سائیکل کی سواری تھی سائیکل بھی اس وقت ہر بندے کے پاس نہیں ہوتا تھا
ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی فصلیں بہت شاندار ہوتی تھیں لوگوں کے پاس پیسے کے فراوانی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گھر کچے ہونے کے باوجود صاف ستھرے تھے
اور یہ خوبی بھی اللہ پاک نے پنجابی عورتوں کو ہی دی ہے کہ آئے روز گھر کی لپائی کرنا گھر کو خوب سے خوب تر بناتے رہنا
مجھے یاد ہے ہمارا کم از کم دو کنال کا گھر ہوتا تھا ایک رہائشی پورشن تھا اور دوسری طرف مال مویشی ہوتے تھے
میری امی جان انہیں اللہ پاک جنت میں جگہ دے اتنے بڑے گھر کی صفائی خود اکیلی کرتی تھیں اور آئے روز مٹی میں گوبر شامل کر کے پورے گھر کی لپائی بھی کرتی رہتی تھیں
اس وقت ہمارے گاؤں تو کیا دور دور تک بجلی کا نام و نشان تک نہ تھا میرے ابو جان نے اپنے وسائل سے ایک کھوتی (گدھی) والا پنکھا بنایا ھوا تھا
اللہ پاک میرے ابو کو جنت میں جگہ دے شام ہوتے ہم سب بہن بھائیوں کی چارپائیاں امی جان پنکھے کے ارد گرد لگا دیتی تھیں
ساری رات کھوتی چلتی رہتی تھی ہمیں ہوا لگتی رہتی تھی ساتھ ہی مال مویشی بھی بندھے ہوتے تھے اور امی جان نے سوکھے ہوے اپلوں کو آگ لگائی ہوتی تھی تاکہ مچھر جانوروں کو نہ کاٹ پائیں اس دھویں کی وجہ سے ہم بھی مچھروں سے محفوظ رہتے تھے
اور بڑے سکون سے رات گزر جاتی تھی لیکن پھر اچانک سکون برباد ہو گیا
جنرل ضیا کا جہاز کریش ھونے سے انتقال ھوگیا پیپلز پارٹی کا دور حکومت آچکا تھا بے نظیر وزیر اعظم بن چکی تھیں سندھ میں پنجابی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے تھے ہر طرف پنجابی کیلئے آگ ہی آگ تھی
سندھ میں بسنے والے پنجابیوں کے برے دن شروع ہو چکے تھے رزلٹ آنا شروع ہو گئے تھے آے دن پنجابیوں کو اغوا براے تاوان کرنا معمول بن چکا تھا پنجابیوں کا قتل کرنا معمول بن چکا تھا
اسی خوف اور ڈر کے سائے میں ھمارے گاؤں کے دو پنجابی خاندانوں نے اپنی زمین اونے پونے بیچ دیں
اور اپنی جان اور اپنی عزت بچا کر پنجاب کا سفر شروع کیا ان کا زمین کا بیچنا تھا کہ بس پیچھے سے زمین بیچنے والوں کی لائنیں لگ گئیں
زمین بیچنے والے پنجابی تھے اور زمین خریدنے والے بلوچ تھے بلوچوں کی تو جیسے لاٹری کھل گئی
میرے چچا جان نے بھی زمین بیچنے کا فیصلہ کر لیا اور فیصلہ بالکل ٹھیک تھا اگر وہ زمین ناں بیچتے تو آج شائد حالات مختلف ھوتے
گاؤں کو چھوڑنا اتنا آسان ناں تھا ایسا علاقہ جہاں سے دن میں گزرتے ھوئے بھی ڈر لگتا تھا ابو جان اور بھائیوں کی دن رات کی محنت کی وجہ زمینیں ایک خوبصورت باغ بن چکی تھی
میں اس وقت نو سال کا تھا لیکن مجھے آج بھی وہ سب کچھ یاد ھے
خیر زمین بیچ دی گئی سامان ٹرک پر لوڈ ہو چکا تھا گھر کے سارے افراد روتے ہوئے سامان کے ساتھ ھی ٹرک پر سوار ہو چکے تھے حسرت بھری نگاہوں سے اپنے گاؤں اور اپنے گھر کو دیکھا جا رہا تھا
وقت گزرتا گیا آج میری عمر انتالیس سال ہے سندھ اکثر آنا جانا رہتا ہے لیکن اپنے گاؤں کبھی نہ میں گیا نہ میرے بھائی
آج میں اور بڑا بھائی اپنی گاڑی پر کراچی جا رہے ہیں راستے میں فیصلہ ھوا کہ کیوں نہ پرانے گاؤں چلیں میں بہت پر جوش تھا
طرح طرح کے خیالات بھی ذہن میں آ رھے تھے کہ گاؤں کیسا ہو گا ظاہر ھے آخر پورے تیس سال کے بعد گاؤں جا رہے تھے
سوچ یہی تھی کہ گاؤں بہت ڈویلپ ہو گیا ہوگا بجلی کا جدید نظام ہو گا روڈ رستے پکے ہو نگے اور تو اور نواں روڈ اسٹاپ بھی بڑا اور کمرشل ہو گیا ہو گا
ٹانگوں کی جگہ کاروں اور رکشوں نے لے لی ہو گی پرائمری اسکول اب کالج بن گیا ہو گا
دونوں بھائی اسی سوچ وچار میں محو سفر تھے کہ اچانک ایک جگہ بریک ماری میں نے بڑے بھائی سے کہا کہ مجھے یہ نواں روڈ اسٹاپ لگتا ہے
تو بھائی کہنے لگا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اس دور میں تو یہاں پر دکانیں ہوا کرتی تھیں چہل پہل ہوتی تھی یہ کیا یہ تو ویران ہے یہاں تو کچھ بھی نہیں
خیر اپنا شک دور کرنے کے لیے سندھی بھائی سے پوچھا کہ یہ اسٹاپ نواں روڈ ہی ھے جواب ملا جی بالکل یہ نواں روڈ ہی ہے
حیرانگی کے ساتھ مین روڈ سے گاڑی اتار کر لنک روڈ پر ڈال دی اور اپنے گاؤں کا سفر شروع کیا بس پھر کیا تھا ہر لمحہ حیران کر دینے والا تھا کوئی چیز بھی پہلے جیسی نہ تھی
مطب بہتر نہ تھی ہر چیز تباہ حال تھی روڈ کے ساتھ ساتھ ایک نہر گزرتی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک کھال (واٹر کورس) کا منظر پیش کر رہی تھی
روڈ بھی میرا خیال جو تیس سال پہلے جنرل ضیا کہ دور میں بنایا گیا تھا وہی بنا بعد میں شاید فائلوں میں بنا ہو جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ چکا تھا
دونوں طرف سے روڈ کو کانٹے دار جھاڑیوں نے گھیر رکھا تھا جیسے جیسے کار کا پہیہ گھوم رہا تھا اپنے گاؤں کو دیکھنے کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی
مجھے یاد ہے لنک روڈ روڈ سے دائیں طرف ایک کچا رستہ اترتا تھا جو ہمارے گاوں کی طرف جاتا تھا تقریباً ایک کلو میٹر دوری پر ہمارا گاؤں تھا
راستے میں ایک نوجوان نظر آیا میں نے سندھی میں اس نوجوان سے اپنے گاوں کا پوچھا تو اس نوجوان نے پنجابی میں بتایا کہ وہ سامنے آپکا گاؤں ھے
لیکن اب وہاں پر سب بلوچ رہتے ہیں وہ نوجوان سمجھ چکا تھا کہ ہم پنجابی ہیں
نوجوان نے چائے اور کھانے کا اصرار کیا ہم نے شکریہ ادا کیا اور آگے بڑھ گئے سامنے ہمارا گاؤں تھا
یہ کیا کار کیسے گزرے گی یہاں سے یہ راستہ تو بہت بڑا ہوتا تھا ہمیں دیکھ کر گاؤں کے لوگ اور بچے کافی تعداد میں جمع ہونا شروع ہو گئے
خیر میرا پاؤں ریس پر تھا میں بریک لگانا چاہتا تھا لیکن دل کے ہاتھوں مجبور تھا میں گاڑی چلاتا رہا میں اپنا گھر دیکھنا چاہتا تھا سامنے میرا گھر تھا میرا اندازاہ تھا میں نے بریک لگائی باہر نکلا
بھائی کو بتایا کہ یہی ہمارا گھر تھا ایک نظر میں اپنے گھر اپنے مچھلی فارم اور اپنی زمین کو دیکھ لیا ہم اپنے گھر کو دیکھ رہے تھے اپنی یادیں تازہ کر رہے تھے خیالوں میں امی اور ابو کو وہاں پر اپنا اپنا کام کرتے دیکھ رہے تھے
اور وہاں کے کم وبیش پچیس تیس لوگ بچے بوڑھے خواتین ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے
خیر سلام کیا تعارف کروایا ان میں سے چند لوگوں نے ہمیں پہچان لیا وہ بہت خوش ہوئے چاے پانی کا بندوبست کیا گیا
ہم نے اپنی زمین دیکھی مچھلی فارم دیکھا اپنا اور سب پنجابیوں کے گھر دیکھے اس گاوں میں اب کوئی بھی پنجابی نہ تھا
لیکن خدا گواہ ہے کہ دل ٹوٹ چکا تھا زندگی کا بڑا ہی غلط فیصلہ تھا وہاں پر آنا گاؤں میں کچھ بھی پہلے جیسا نہ تھا تمام گھر ٹوٹ چکے تھے
ان کی جگہ کانٹے والے گھروں نے لے لی تھی مچھلی فارم صفائی نہ ہونے سے سکڑ چکا تھا اور انتہائی گندہ ہو چکا تھا
امرود اور لیموں کے باغ ختم ہو چکے تھے قدرتی درخت اور قریبی جنگلات بھی کاٹ کر بیچ دئیے گئے تھے
گاؤں کی گلیاں سکڑ چکی تھیں اور بے ہنگم اور انتہائی گندی تھیں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا
سب سے بڑھ کر یہ کہ میں جیسے جیسے اپنے گھر کو دیکھتا ویسے ہی مجھ پر بجلی سی گر جاتی بلوچوں نے کیا حال کر دیا تھا ہمارے گاؤں کا
کیا تمام برے کاموں کے ذمےدار پنجابی یا پھر حکومت ہوتی ھے لکھنے کو بہت کچھ ھے واپسی کا سفر شروع کیا
کسی نے سچ ہی کہا ھے کہ بلوچ کی مثال اونٹ جیسی ھے جس طرح اگر کسی اونٹ کو درخت کے نیچے باندھ دیا جاے تو اونٹ اسی درخت کو کھا جاتا ہے جس کے سائے میں وہ کھڑا ہوتا ھے
اللہ تعالیٰ سندھ کی حفاظت فرمائے .
*PNF Sindh Zone*
Comments
Post a Comment