تاریخ کا ایک کڑوا سچ ،
پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے  سیکولر سے مسلم قوم پرست اور مسلم لیگی بننے  والے جی ایم سید سندھ میں ھندو مسلم فسادات کے اھم محرک تھے جو بعد سندھی قوم پرست بن گئے اور 1954 میں لیاقت علی خان کے باقاعدہ پلاننگ کے تحت لائے گئے گنگا جمنا کی تہذیب والے الطاف حسین کے سن اسی کی دھائی میں مھاجر قوم پرست بننے اور سندھ میں لسانی اور عصبیت کی خلیج اور وسیع ھونے کے بعد سندھ بربادی کی دلدل میں ڈوبا

سندھ سے ھندوؤں کی نقل مکانی کا سب سے بڑا سبب برصغیر کے بٹوارے سے پہلے سندھ میں مسجد منزل گاہ کے فسادات تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں ھونے والے بٹوارے کے بعد سندھ سے شاہ عبد الطیف ' سچل اور سامی کے شارح اور ان کے رسائل مرتب کرنے والے بڑے لوگ سندھ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن میں ڈاکٹر گربخشانی ' کلیان آڈوانی ' لعل چند امر ڈنو مل ' جیٹھ مل پرسرام ' بھیرومل مہرچند آوانی ' ٹی ایل واسوانی سمیت کئی اور اھم لوگ تھے۔

مسجد منزل گاہ پر برپا ھوئے فسادات سندھ کی امن والی دھرتی اور سندھیوں میں مذھبی رواداری کے لیے بڑا المیہ ھیں۔ یہ فسادات صوفیا کی سرزمین پر کسی بدنما داغ اور کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں لیکن تاریخ کا سچ یہی ھے کہ؛ سندھ میں پاکستان بننے سے نو برس پہلے مذھب کے نام پر فسادات ھوئے تھے اور ایک رات میں ایک سو لوگوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ سندھ میں یہ خونریزی کا واقعہ مسجد منزل گاہ کے نام سے مشہور ھے۔ جس میں پیروں ' گدی نشینوں اور سیاست دانوں پر مشتمل اشرافیہ کے ھاتھ رنگے ھیں۔

سنہ 1939 میں سکھر کی ایک لاکھ آبادی میں ساٹھ ھزار ھندو اور چالیس ھزار مسلمان تھے۔ آبادی اس طرح تھی کہ دریا کے کنارے تو کل ھندو آباد تھےاور مسجد منزل گاہ کے مقابل دریا کے بیچ میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ھے۔ جس میں ھندوؤں کا ایک مندر ھے۔ جس کو سادھ بیلا کہتے ھیں۔

مسجد منزل گاہ کے گرد مسلمانوں کی کوئی آبادی نہ تھی۔ سکھر میں مسلمان سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور تھے۔ جبکہ ھندو سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر نہ صرف یہ کہ خوش حال بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز تھے۔

انگریزوں نے مسجد منزل گاہ کو تالا لگوا دیا تھا۔ 1939 میں جب خان بہادر ﷲ بخش سومرو سندھ مسلم لیگ کو شکست دے کر برسراقتدار آئے تو مسلم لیگیوں نے مسجد منزل گاہ کی واگزاری کے مسئلہ کو تحریک بناکر سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ تا کہ خان بہادر ﷲ بخش سومرو کو پچھاڑا جا سکے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے عزم اور پروگرام کے مطابق جب مسلمانوں میں تحریک نے زور پکڑا اور مسجد کے تقدس وحرمت کے جذباتی مسئلہ کی وجہ سے معاملہ بڑھ گیا تو مقابلہ میں ھندوؤں میں بھی جوابی کارروائی کے لیے تیاریاں شروع ھوئیں۔

مسجد منزل گاہ کے متعلق ھندوؤں نے یہ دعوی کردیا کہ؛ یہ عمارت سرے سے مسلمانوں کی مسجد ھی نہیں ھے۔ اگر اس کو واگزار کیا گیا تو الٹا مسلمان انتہاپسندوں کا مرکز بنے گا اور ھماری جو بہو بیٹیاں مسجد سے متصل ساحل سے چل کر سادھ بیلے کے تیرتھ پر جاتی ھیں۔ وہ غیر محفوظ ھو جائیں گی اور ھماری عزت و آبرو کو شدید خطرہ ھوگا۔

مسجد منزل گاہ کے فسادات کے ایک بڑے کردار جی ایم سیّد اپنی کتاب "دی کیس آف سندھ" میں صفحہ 27 پر لکھتے ھیں کہ؛
 سکھر میں ایک پرانی بوسیدہ عمارت تھی جس کو مسلمان مسجد منزل گاہ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس پر اپنا قبضہ کرنے کے لیے شکارپور اور سکھر کے وفود نے اُس وقت کے وزیراعلیٰ اللہ بخش سومرو سے ملاقات کی جنہوں نے جمعیت علمائے سندھ کے کچھ رھنماؤں کو زمینی جائزہ لینے کے لیے مقرر کرکے رپورٹ منگوائی۔ اس رپورٹ میں مسجد ھونے کی تصدیق ھوئی تو وھاں کی مقامی ھندو برادری نے اعتراض کیا کہ؛ اس جگہ کے سامنے ھماری مذھبی عبادت گاہ ھے اور وہاں جانے والی ھندو خواتین کی عزت آبرو کو خطرہ ھوگا .

وہ آگے لکھتے ھیں کہ؛ اللہ بخش سومرو اس حوالے سے کسی نیتجہ پر نہیں پہنچے تو مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ؛ اس مسئلے کو اپنے ھاتھوں میں لے لیا جائے۔ جس کے بعد ستیہ گرہ کا فیصلہ کیا گیا۔ جس میں بھرچونڈی کے پیر عبدالرحمان نے اپنے مریدوں کے ساتھ حصہ لیا۔ لیکن اللہ بخش سرکار نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی جس میں مقدمہ چلائے بغیر کسی کو بھی جیل بھیجا سکے۔ نتیجے میں احتجاج کرنے والے ساڑھے تین ھزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

جی ایم سیّد لکھتے ھیں کہ؛ مجھے کانگریس میں رھنے کی وجہ ایسے معاملات کا کافی تجربہ تھا۔ میں نے اس معاملے کو توھین سمجھا۔ جب تحریک چل چکی تھی تو اس کو بیچ میں چھوڑنا نقصان دہ تھا۔ اس لیے میں نے کمان سنبھال لی اور مسجد منزل گاہ پر قبضہ کر لیا۔ 19 نومبر 1939 کو پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ کرکے پولیس نے مسجد کا قبضہ اپنے ھاتھوں میں لے لیا۔ اسی دن سکھر میں ھندو مسلم فسادات ھوئے۔ جس میں کئی بے گناہ جانوں کا نقصان ھوا اور ملکیتیں تباہ ھوئیں۔ جی ایم سید نے فوت ھونے والے لوگوں کی تعداد نہیں بتائی۔ لیکن یہ ایک سو سے زائد لوگ تھے۔ جس میں اکثریت ھندوؤں کی تھی۔ جبکہ مسجد منزل گاہ کی وجہ سے ھونے والے ھندو مسلم فسادات میں دو ھزار سے زیادہ افراد ھلاک ھوئے اور ان میں سے زیادہ اکثریت ھندوؤں کی تھی۔

اُس وقت کے ایک اور مسلم لیگی سرکردہ رھنما علی محمد راشدی تھے۔ جن کے چھوٹے بھائی پیر حسام الدین راشدی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ؛ انہوں نے مسجد منزل گاہ کے فسادات میں حصہ لیا تھا۔ اس واقعے کے دو اھم کردار علی محمد راشدی اور جی ایم سیّد تھے۔ ھر معاملے پر انہوں نے معاملے کو بڑھاوا دیا ۔ جی ایم سیّد نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ؛ سندھ سے وہ ھندؤوں کو ایسے نکالیں گے جیسے ھٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکالا تھا۔
اس کے کچھ عرصے بعد سائیں جی ایم سید مسلم قوم پرست سے سندھی قوم پرست بن گئے اور ان پنجابیوں کے خلاف تحریک چلائی جن کو سندھ کی آبادکاری کیلئے قائل کرنے اور لینے کیلئے وہ وفد کے ساتھ پنجاب گئے تھے لیکن سندھی قوم پرست بنتے ھی وہ پنجابی جنھیں سائیں جی ایم سید خود سندھ آباد کرنے کیلئے لائے سامراجی ھو گئے اور سندھ کو آباد اور ترقی دینے والے ایک بار پھر یا سندھ بدر کر دئے گئے یا دوسرے درجے کے شھری بنا دئے گئے اور نفرت کی ایک خلیج پیدا کردی گئی جس اثرات آج بھی موجود ھیں ،
سندھ کے ساتھ ایک ظلم سن اسی کی دھائی میں کیا گیا جب 1954 کے بعد لیاقت علی خان کے انڈیا سے باقاعدہ پلاننگ کے تحت لائے گئے لوگوں کو جو سندھ کی متروکہ املاک پر پہلے ھی قابض تھے جس کے وہ قطعی حقدار نہ تھے مھاجر کے نام منظم کرکے عصبیت اور لسانیت میں اس صوفیوں شاہ لطیف سچل سرمست اور قلندر کی پیار امن اور آتشی کی سرزمین کو جھونک دیا گیا جس میں سندھ واسیوں کو ایک دوسرے کے باھم دست و گریبان کیا ہزاروں لوگ جانوں سے گئے املاک تباہ ھوئیں اور خاندان کے خاندان برباد ھو گئے ...
سندھ کے ساتھ قوم پرستی کے نام پر عصبیت اور لسانیت کا پرچار کرکے آج بھی ظلم جاری ھے اور لوگ قوم پرستی اور عصبیت لسانیت علاقائیت میں فرق نہیں کر پا رھے ایک سچا قوم پرست اپنی اور اپنی قوم کی جان مال اور عزت کی حفاظت کے ساتھ دوسری قوموں کی جان مال اور عزت کی بھی حفاظت کرتا ھے ان کے حقوق کیلئے بھی بات کرتا ھے
لیکن بدقسمتی سے سندھ کو عصبیت لسانیت اور علاقائیت پرست تو بہت ملے صحیح اور سچے قوم پرست نہیں ملے..
*پنجابی نیشنلسٹ فورم* واحد قوم پرست فورم ھے جو تمام مظلوم لوگوں کے حقوق کی بات کرتا ھے پاکستان کے اس خطے میں آباد تمام قوموں کو ان کے حقوق دینے کی بات اور وکالت کرتا ھے اسی لئے عصبیت لسانیت اور علاقائیت کے ٹھیکیدار، پٹھان بلوچ مھاجر کی عصبیت لسانیت اور علاقائیت پرستی پر تو گونگے بہرے اور اندھے بنے رھتے ھیں لیکن پنجابیوں کی قوم پرستی پر گلا پھاڑ کر شور مچاتے اور اسلام پاکستان کا راگ الاپتے ھیں ان شاء اللہ اب سندھ سمیت پورا پاکستان جو کہ انڈس سولائیزیشن کی زمین پر قائم ھے اس کے اصل زمین زادوں اور اسی پرسنٹ آبادی پنجابی سماٹ سندھی اور براہوی کو انکا حق اقتدار اور اختیار ملنے کے بعد حقیقی ترقی اور امن کی منزل پا لے گا اور اس دھرتی پر آکر آباد ھونے والے پٹھان بلوچ اور اردو بولنے والے بھی سکون امن سے رہ کر ترقی کر سکیں گے .
*افضل پنجابی زونل آرگنائیزر پی این ایف سندھ زون*

Comments

Popular posts from this blog

صوبائی زبانوں کو فوراَ نافذ اور قومی زبان کے لیے آئینی ترمیم کی جائے۔

Triple Role of Punjabi Is An Urge To Revive The Punjabi Nationalism.

The Rise of Punjabi Nationalism.