Posts

Showing posts from April, 2023

«برادری ، ذاتاں ، پیشہ تے پاکستانیاں دا مخمصہ» «کاسٹ سسٹم اور پاکستانیوں کی کنفیوژن» اچھا تو آپ کیا چاہتے ہیں کہ ایک "نائی" کو نائی نہیں بلکہ پروفیسر کہا جاتا؟ نہیں یہ ایک سیدھی بات ہے ہند میں یہ پیشے اپنے مقامی زبانوں کے ناموں سے جانے جاتے تھے "جولاہے" کو جولاہا نا کہا جاتا تو کیا ہزاروں سال قبل برصغیر کے لوگ یورپ جاتے اور یورپیوں کی زبان انگریزی سے لفظ "ویور" لے کر آتے؟ اور اپنے دیس میں کپڑا بننے والوں کو جولاہا نہیں بلکہ ویور کہتے؟ موچی جو جوتیاں بناتا ہے اسے آج آپ شُو میکر کہہ سکتے ہیں لیکن مطلب تو دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے، جب باہری قومیں ہندوستان میں آئیں اور ان میں خاص طور پر عرب ، ترک، اور خراسانی ان پیشوں سے بالکل نا واقف تھے کیونکہ انکی سرزمینوں پر پیشوں یا آرٹسٹوں کا ایسا منظم نظام تھا ہی نہیں، انہوں نے ان پیشوں کو باعث حقارت سمجھنا اور پکارنا تک شروع کردیا کیونکہ انکے معاشروں میں اتنے باریک بین پیشوں کا ناتو تصور تھا اور نا ہی انکا کلچر ان پیشوں کا طلبگار تھا ایک ترکھان جو لکڑی کا کام کرتا ہے، ایک لوہار جو لوہے کا کام کرتا ہے، ایک میراثی جو سنگیت کار ہے کو انکے پیشوں سے ہی پکارنا ظلم اور زیادتی کس طور ہوگیا؟ لیکن آپ اتنے بھولے ہیں کہ انگریزی لفظ پیؤن کو تو مہذب سمجھتے ہیں لیکن لفظ چپڑاسی کو گالی سمجھتے ہیں مطلب جو لفظ مقامی زبان میں ان پیشوں کے لیے ہوگا اسے گالی سمجھا جائے گا لیکن اسکے متبادل اگر آپ ترکھان کو عربی کے نجّار لفظ سے پکاریں یا اسکے متبادل انگریزی نام سے پکاریں تو وہ مہذب خیال ہوگا؟ کسی کام کرنے والے کو "کامّا" کہیں تو وہ گالی ہوگی اور اگر اسے "لیبر" یا "مزدور" کہیں تو عین اخلاقی سمجھا جائے گا؟، یہ آپ کی مقامی زبانوں کے مقامی الفاظ اور ان پیشوں کی مقامی اصطلاحوں کے بارے میں مِس کونسیپشن اور حقارت ہے، برادری سے ہٹ کر لے لیں آپ لفظ "سالے" کو گالی کے زُمرے میں کیوں لیتے ہیں؟ یہ لفظ کوئی گالی نہیں بلکہ مقامی ہندوستانی/پنجابی زبانوں کا قدیم لفظ ہے جس کا مطلب بیوی کا بھائی ہے لیکن آپ نے اسے گالی قرار دے دیا جبکہ اسکے متبادل "برادرِ نسبتی" عین اخلاقی قرار پایا کیا یہ مذاق ہے؟ سالا لفظ اگر گالی ہے تو اسکا متبادل بھی کوئی مقامی لفظ ہی ہونا چاہئے تھا اوّل تو عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت تھی کہ مقامی ہندوستانی/پنجابی پیشوں یا رشتوں کی اصطلاحیں حقارت کے طور پر نہیں بلکہ ان پیشوں کے مقامی ناموں پر مبنی ہیں، تیلی، ماچھی، قصائی، بازیگر، چمار یہ سب مختلف پیشوں کے مقامی نام ہیں نہ کہ گالیاں اور جو کوئی جو کام کرتا ہے اسے اس پیشے سے ہی پکارا جاتا ہے یہ ہند نہیں پوری دنیا کا آج تک کا چلن ہے، آپ جدید دنیا میں لوگوں کو انکے پیشے سے ہی پکارتے ہیں ڈاکٹر کو ڈاکٹر ، وکیل کو وکیل ، کئی مرتبہ مجھ سے یہ سوال ہوتا ہے کہ ہندوستان/پنجاب کے ان سب پیشوں کو برادریاں کیوں کہا جاتا ہے جبکہ یہ تو صرف پیشے ہیں، یہاں لوگوں کو ایک بہت بڑی کنفیوژن ہوتی ہے کیونکہ وہ برصغیر کے کاسٹ سسٹم کو صرف معروضی تاثر سے دیکھتے ہیں، برصغیر میں یہ تمام پیشے ہزاروں سال پہلے فارم ہوئے اور انکی ترکیب یوں تھی کہ یہ پیشے "نسل در نسل" چلتے تھے مطلب ترکھان کا بیٹا ترکھان، نائی کا نائی، جولاہے کا بیٹا جولاہا اور کمہار کا بیٹا کمہار ہی بنتا تھا کیونکہ اس وقت معاشرے کی ترکیب اسی طرح کی تھی اس "نسل در نسل" والے نظام کا فائدہ یہ تھا کہ کسی بھی پیشے کی تیاری کے لیے " ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس" یا "یونیورسٹیز" کی ضرورت چنداں نہیں پڑتی تھی دنیا کا سب سے بہترین اور وسیع ترین موسیقی کا علم حاصل کرنے کے لیے کسی کو کسی انسٹیٹیوٹ کی ضرورت نہ تھی یہ علم ہزاروں سال تک ایک جسم سے دوسرے جسم میں نہ صرف منتقل ہوتا گیا بلکہ جینز در جینز ایک ہی پیشے سے منسلک ہونے کی وجہ سے اس برادری کو اس پیشے میں وہ کمال حاصل ہوا جو دنیا میں کہیں بھی موسیقاروں کو آج تک حاصل نہ ہوسکا آج بھی یہ سارا علم بغیر کسی کاغذ کی تحریر پر لکھے ہوئے لاکھوں موسیقار "میراثیوں" کے سینوں میں محفوظ ہے، تو یہ پیشے برادریاں اس لیے ہیں کہ ہزاروں سال کے نسل در نسل ان پیشوں سے منسلکی کی وجہ سے یہ پیشے جو اس دھرتی کی ریڑھ کی ہڈی تھے سے منسلک لوگ "برادری" کے طور پر شمار ہونے لگے اور پلیز یہ بے سرو پاء منطقیں سماپت کریں، سعودی عرب کی آبادی سوا دو کروڑ ہے یعنی سعودی ان سوا دو کروڑ انسانوں میں آپس میں رشتے داریاں کرتے ہیں ان میں مختلف قبیلے مختلف قبیلوں میں رشتے داری نہیں کرتے مطلب وہ سو دو کروڑ لوگ تمام تر تقسیموں کے باوجود کسی غیر عرب بلکہ خاص حالات میں غیر سعودیوں میں بھی شادی نہ کرکے بھی اگر اپنا معاشرہ چلا رہے ہیں تو برصغیر پر آپ کا ٹانٹ کرنا کیونکر بنتا ہے؟ یہاں ہر برادری کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے کئی برادریوں کی تو چار پانچ دس کروڑ سے بھی زیادہ آبادی ہے مطلب کیا سادگی ہے آپکی بھئی برصغیر میں ان برادریوں کی ایک ایک برادری کی آبادی کئی کئی ملکوں سے زیادہ ہے تو اگر وہ اپنی برادری سے باہر شادی نہ بھی کریں تو کیا طوفان آجائے گا؟ کیا کلاس سسٹم آج بھی دنیا میں رائج نہیں؟ کیا نشاط گروپ کے مالکوں نے اپنی تمام رشتے داریاں اپنی ٹیکسٹائل ملّوں کے مزدوروں سے کی ہیں؟ کیا جرنیل اپنی رشتے داریاں یا سیاستدان یا بزنس مین اپنی رشتے داریاں اپنے سے نچلی کلاس میں کرتے ہیں؟ تو یہ بکواس ہی بالکل خرافات کے زمرے میں آتی ہے کہ برصغیر کے لوگ اپنی برادریوں سے باہر رشتے داری کیوں نہیں کرتے تھے، برصغیر کا موازنہ ان اسلامی ملکوں سے کرکے تو دیکھیں؟ یہاں ایک اور بات ذکر کر دوں یہ پیشوں سے منسلک جو برادریاں ہیں ان میں دو طرح کے لوگ تھے ایک وہ جو قدیم دور سے ان قدیم زرعی یا انتظامی پیشوں سے منسلک تھے جیسے ترکھان، جولاہا، موچی، تیلی، ماچھی وغیرہ اور ایک وہ طبقہ جنہوں نے بوجہ غربت ان پیشوں کو دوسری برادریوں سے نکل کر اختیار کیا مطلب ان برادریوں کا نوے فیصد پورشن اصلی قدیمی پیشوں سے منسلک لوگوں پر مبنی تھا اور تقریباً دس سے بیس فیصد زمیندار برادریوں سے نکل کر بوجہ غربت ان پیشوں میں گئے لیکن انکو ان پیشوں میں جانے کے بعد ان پیشوں کی برادری کے طور پر ہی اختیار کرنا پڑا، تو ہند یا برصغیر کا بنیادی وِژڈم یہ تھا کہ اس میں تمام تر انڈسٹری تمام تر فنون لطیفہ تمام تر آرٹسٹک پیشے خودکار طریقے سے ترقی پاتے اور جینز در جینز ان میں ہر لحظہ چمک بڑھتی رہتی ، اچھا ایک سوال کا جواب دیں آج تک پاکستان یا ہندوستان میں غیر موسیقار گھرانوں سے اُس پائے کا کوئی موسیقار پیدا کیوں نہ ہوسکا جیسے موسیقار ان پیشوں سے منسلک گھرانے صدیوں سے پیدا کرتے چلے آرہے ہیں؟ آج آپ کسی راجپوت جٹ یا گجر یا بٹ کو بھی بال کاٹنے کا کام سکھا کر ہئیر سلون پر بٹھا سکتے ہیں لیکن انصاف کریں کہ یہ آج ہے جب سب کُچھ کمرشلائز ہوچکا ہے اُس وقت کا اندازہ لگائیں جب اجرت کرنسی میں نہیں دی جاتی تھی(کیونکہ کرنسی کی ضرورت ہی نا تھی) اور اس آسودہ معاشرے کا اندازہ لگائیں جہاں کسٹمر نائی کے پاس نہیں بلکہ نائی فرداً فرداً کسٹمر کے پاس جاتا تھا اور اسے پیمنٹ شماہی پر دی جاتی تھی مطلب اسکی جاب سیفٹی کا اندازہ لگائیں کیا اسکی جاب سیف نا تھی؟ کیا اسکو اس پیشے پر سوائے ایک کنگھی کینچی اور اُسترے کے کوئی انویسٹمنٹ کرنا پڑتی تھی، اور پلیز ہندوستان کے کاسٹ سسٹم کو حقارت ناک سسٹم کہنا بند کریں ایسا سسٹم عرب و ترک و افغان کسی کے پاس نہ تھا یہاں تک کہ یورپ و روس و چین کو بھی ایسا نظام بنانا نصیب نہ ہوا یہ تو بھلا ہو ماڈرنائزیشن کا جس نے ان تمام تہذیبوں کے ماضی میں پُھدّو ہونے کے تمام ثبوت چھپا لیے، بات نائی کی ہو رہی تھی وہ نائی جو بال کاٹتا تھا ، شادیوں میں کُک ہوتا تھا اور سب سے بڑھ کر معاشرے کے سب سے طاقتور طبقے یعنی حکمران و زمیندار طبقے کی نئی رشتے داریاں اس نائی کے ذریعے انجام پذیر ہوتی تھیں ، اب آپ خود سوچیں اگر نائی کو حقارت سے دیکھا جاتا تھا تو معاشرے کا سب سے طاقتور طبقہ اسے یہ اختیار کیوں دیتا تھا کہ وہ انکی رشتے داریوں کا انٹرمیڈئیٹر بنے؟ نہیں یہ مذاق نہیں ہے پنجاب کا چلن تھا کہ دونوں گھرانے بنفسِ نفیس ایک دوسرے کے متھے نہ لگتے بلکہ نائی کو یہ اختیار دیا جاتا کہ وہ دو گھرانوں کا معاشرتی اور اکنامیکل اور اخلاقی سٹیٹس دیکھ کر انکی رشتے داری کروا دے اسکے بعد میراثی کا کردار شروع ہوتا میراثی لفظ مسلمانوں کے برصغیر میں آنے کے بعد ہند کے قدیم پیشے "بھاٹ" کو مسلم کمیونٹی میں دیا گیا جیسے چمار پیشے کو مسلم سوسائٹی میں موچی لفظ دیا گیا ، میراثی (اصل لفظ بھاٹ) دراصل ہندوؤں کی اپر کلاس کے وہ "جنیالوجسٹ" ہوتے تھے جنکا ہزاروں سال سے نسل در نسل کام ہندوؤں کی اپر کلاس کے شجرے محفوظ کرنا ہوتا تھا، یہ شجرے کسی ایکسل شیٹ کی شکل میں نہیں بلکہ خاص گھرانوں میں شاعری کی شکل میں لکھے جاتے تھے اور جنگجو ہندو قبائل کے ان راجاؤں کی کتھائیں بمع انکے نسل در نسل شجرے کے یہ بھاٹ لکھتے اور ان گھرانوں کی محفلوں میں خاص طور پر شادی بیاہ کے موقعے پر پڑھ کر سناتے اسکے علاوہ شجروں کا ریکارڈ بنا شاعری کے نسل در نسل بھی محفوظ کیا جاتا ، یہاں سے بھاٹ کے متبادل لفظ میراثی مسلم سوسائیٹی میں لفظ میراث سے مشتق ایجاد ہوا یعنی وہ پیشہ جو نسل در نسل کے شجروں کا ریکارڈ رکھنے والا ہو اور اسے پڑھ کر سنانے والا ہوا، بھاٹ ہندو سوسائیٹی میں کوئی ریہند کھوند قسم کے لوگ نہ تھے بلکہ انکی بہت زیادہ اتھارٹی تھی کچھتریہ میں کریوے کی ممانعت کی وجہ سے اگر کوئی کچھتریہ کریوے کا مرتکب ہوتا تو وہ کتنا بڑا راجہ ہی کیوں نا ہوتا اسکا نام شجرے سے نکال دیا جاتا تھا بھاٹوں کی اتھارٹی کا اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ انہیں عین شاہی پروٹوکول دیا جاتا تھا انکو پگڑی پہننا لازم قرار دیا گیا تھا اور یہ پورے ہند کے مذہبی، شاہی، اور بزنس کلاس کے شجروں کے محافظ تھے شادی بیاہ میں بھاٹوں کو اُتم اتھارٹی مانا جاتا تھا شادی سے قبل ہی دونوں اطراف کے بھاٹ دونوں خاندانوں کا شجرہ دُلہا اور دُلہن تک پڑھ کر سناتے اور اگر دونوں طرف سے کسی میں کُچھ کجی ہوتی تو شادی سرانجام نہ دی جاسکتی تھی، آپ کو یہ سن کر حیرانگی ہوگی کہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے قدیم اور طویل شجرے برصغیر کے لوگوں کے پاس ہیں اندازہ لگائیں کہ اس دھرتی ہے کے لوگوں نے اپنے شجروں محفوظ کرنے کی سُوجھت کتنا عرصہ قبل حاصل کرلی ہوگی، بعد میں بھاٹ اور میراثی دو الگ الگ پیشے بن گئے میراثی عمومی لفظ گانے بجانے والے اور بھاٹ خاص جینالوجیسٹ کی سینس میں پنجاب میں استعمال ہونے لگا یاد رہے بھنڈ پیشہ میراثی اور بھاٹ دونوں سے مختلف پیشہ تھا، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ فقط پیشے نہ تھے بلکہ نسل در نسل چلنے والے فنون تھے جو برادریوں کی شکل اختیار کرچکے تھے اور انکو برادری کی سینس میں ہی دیکھا جاتا تھا، خود احساسِ کمتری کا شکار وہ قومیں جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنے قسم کے آرٹیسین پیشے بھی اس شکل میں بنائے جاسکتے ہیں کہ بنا کسی ایڈیشنل حکومتی ایفرٹ کے وہ خودکار طریقے سے چلتے رہیں ان عربوں ، ترکوں، خراسانیوں، منگولوں نے جب اتنا خوبصورت نظام دیکھا تو شدید احساسِ کمتری نے انہیں آن گھیرا کہ وہ فاتح جن زمینوں سے آئے تھے وہاں ابھی تک عمارت سازی کے بنیادی علوم تک بھی پروان نا چڑھے تھے اور ہند میں سینکڑوں کاموں کے لیے سینکڑوں انتہائی ٹرینڈ پیشے موجود تھے اسی احساسِ کمتری نے انکو یہ جُملہ بار بار ہزار بار اور صدیوں سے آج تک بولتے رہنے پر مجبور کردیا "برصغیر کے لوگ تو ذات برادریوں میں بٹے ہوئے تھے" جبکہ اگر یہ انصاف کرتے تو یہ مطالعہ پاکستان میں یہ کہتے کہ "برصغیر نے اوپن مارکیٹ اور ٹیکینیکل ٹریننگ میں اُس وقت کمال حاصل کرلیا تھا جب دنیا کو ناک پُونجنے کا بھی نہیں پتا تھا" ﹏﹏✎ عͣــلᷠــͣــᷢی

Image
 «برادری ، ذاتاں ، پیشہ تے پاکستانیاں دا مخمصہ» «کاسٹ سسٹم اور پاکستانیوں کی کنفیوژن» اچھا تو آپ کیا چاہتے ہیں کہ ایک "نائی" کو نائی نہیں بلکہ پروفیسر کہا جاتا؟  نہیں یہ ایک سیدھی بات ہے ہند میں یہ پیشے اپنے مقامی زبانوں کے ناموں سے جانے جاتے تھے "جولاہے" کو جولاہا نا کہا جاتا تو کیا ہزاروں سال قبل برصغیر کے لوگ یورپ جاتے اور یورپیوں کی زبان انگریزی سے لفظ "ویور" لے کر آتے؟  اور اپنے دیس میں کپڑا بننے والوں کو جولاہا نہیں بلکہ ویور کہتے؟  موچی جو جوتیاں بناتا ہے اسے آج آپ شُو میکر کہہ سکتے ہیں لیکن مطلب تو دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے، جب باہری قومیں ہندوستان میں آئیں اور ان میں خاص طور پر عرب ، ترک، اور خراسانی ان پیشوں سے بالکل نا واقف تھے کیونکہ انکی سرزمینوں پر پیشوں یا آرٹسٹوں کا ایسا منظم نظام تھا ہی نہیں، انہوں نے ان پیشوں کو باعث حقارت سمجھنا اور پکارنا تک شروع کردیا کیونکہ انکے معاشروں میں اتنے باریک بین پیشوں کا ناتو تصور تھا اور نا ہی انکا کلچر ان پیشوں کا طلبگار تھا  ایک ترکھان جو لکڑی کا کام کرتا ہے،  ایک لوہار جو لوہے کا کام کرتا ہے،  ایک میر...

پنجابی قوم پرست آپنے آپنے پنڈ گلی محلے شہر اسکول کالج یونیورسٹی دکان مارکیٹ فیکٹری سمیت ہر تھاں تے ملن والے آپنے پنجابی بھراواں نوں اے سیاسی شعور دین کہ ؛ الیکشن وچ ووٹ لین لئی آن والے ہر امیدوار کونسلر ایم پی اے تے ایم این اے کولوں سڑکاں گلیاں ٹرانسفارمر گیس دے مطالبے کرن دے نال نال اے مطالبہ وی کرن کہ پنجاب دے سارے تلیمی اداریاں وچ منتظم ہیڈ ماسٹر ، پرنسپل تے وائس چانسلر پنجابی نوں لوان ناں کہ پنجاب دے ڈومیسائل تے پنجابیاں دا حق مارن والے ماں بولی پنجابی دے دشمن یوپی اشرافیہ دے ایجنٹان تے دوجے پنجابی بولی دے دشمناں نوں . پنجاب وچ ماں بولی پنجابی دی بیقدری دے سبھ توں وڈے ذمیوار یوپی اشرافیہ دی اردو مافیا دے ایجنٹ ہیڈماسٹر پرنسپل وائس چانسلر تے ذہنی غلام ڈڈو پنجابی نیں . پنجابیاں وچ قومی سیاسی شعور پیدا کرنا ہر پنجابی قوم پرست دا اولین فرض ہونا چائیدا اے ... #PGFInt

Image
 پنجابی قوم پرست آپنے آپنے پنڈ گلی محلے شہر اسکول کالج یونیورسٹی دکان مارکیٹ فیکٹری سمیت ہر تھاں تے ملن والے آپنے پنجابی بھراواں نوں اے سیاسی شعور دین کہ ؛ الیکشن وچ ووٹ لین لئی آن والے ہر امیدوار کونسلر ایم پی اے تے ایم این اے کولوں سڑکاں گلیاں ٹرانسفارمر گیس دے مطالبے کرن دے نال نال اے مطالبہ وی کرن کہ پنجاب دے سارے تلیمی اداریاں وچ منتظم ہیڈ ماسٹر ، پرنسپل تے وائس چانسلر پنجابی نوں لوان ناں کہ پنجاب دے ڈومیسائل تے پنجابیاں دا حق مارن والے ماں بولی پنجابی دے دشمن یوپی اشرافیہ دے ایجنٹان تے دوجے پنجابی بولی دے دشمناں نوں . پنجاب وچ ماں بولی پنجابی دی بیقدری دے سبھ توں وڈے ذمیوار یوپی اشرافیہ دی اردو مافیا دے ایجنٹ ہیڈماسٹر پرنسپل وائس چانسلر تے ذہنی غلام ڈڈو پنجابی نیں . پنجابیاں وچ قومی سیاسی شعور پیدا کرنا ہر پنجابی قوم پرست دا اولین فرض ہونا چائیدا اے ... #PGFInt

«اکبر بگٹی نال وقت گزارن والے اک پنجابی دی ڈائری چوں» «ان کا نوحہ کبھی نہیں لکھا جائے گا» نواب محمد اکبر بگٹی کے گھر فاطمہ جناح روڈ کی رات گئے کی محفلیں غضب کی ہوا کرتی تھیں، بلا کے مہمان نواز اور حیران کن حد تک دنیا کے ہر موضوع پر مطالعہ رکھنے والے نواب صاحب سے گفتگو زندگی کا حاصل ہے۔ نواب بگٹی اپنے گھر سے چہل قدمی کرتے ہوئے جناح روڈ پر آتے، بولان میڈیکل ہال انکے دوست نوروزعلی میر کی دکان تھی، کچھ وقت وہاں گزارتے، ساتھ ہی بک لینڈ اور کوئٹہ بک سٹال جاتے، کوئی رسالہ یا کتاب خریدتے اور گھر لوٹ جاتے ،جہاں شام کو انکی محفل میں شہر کے معززین، صحافی، ادیب اور دانشور شریک ہوتے۔ نوروز علی میر سے میری ایک طرح کی عزیز داری تھی تو یوں ایک دن انکی دکان پر میری ان سے ملاقات ہو گئی میرے نام پر ان کی شدید حیرت سے میرے ساتھ انکے تعلق کا آغاز ہوا اور آخری وقت تک قائم رہا۔ شروع شروع میں نواب صاحب کبھی کبھی پنجاب کے حوالے سے بات شروع کرتے تو مجھے مخاطب کر کے کہتے "تم پنجابیوں نے" ایسا کیا۔ ایک دن انہوں نے بلوچستان میں تعینات پنجابی پولیس افسران کے بارے میں کہا کہ؛ یہ تمہارے پنجابی پولیس والے یہاں کے سادہ لوح بلوچوں اور پشتونوں پر ظلم کرتے ہیں میں نے کہا آپ نے کبھی ان پنجابی پولیس والوں کو پنجابیوں پر ظلم کرتے نہیں دیکھا، وہاں تو یہ انسانیت کے نچلے درجے سے بھی گر جاتے ہیں۔نواب صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مونچھوں کو درست کیا اور میری تائید کردی۔ لیکن ہمارے تعلقات میں گرم جوشی اس دن پیدا ہوئی جب ایک دن اسی طرح ان سے پنجابیوں کے بارے میں بحث ہورہی تھی تو میں نے کہا کہ؛ نواب صاحب، معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ اگر مجھے اپنے پیدا ہونے پر اختیار ہوتا تو میں ایک غریب اکاؤنٹنٹ پنجابی کے گھر نہیں کم از کم کسی تیل کے کنوئیں کے مالک عرب کے گھر پیدا ہوتا اور آپ بھی ڈیرہ بگٹی کے ویرانے میں کسی سردار کے گھر پیدا ہونے کی بجائے نسل در نسل بادشاہت والے برطانوی شاہی خاندان میں پیدا ہونے کو ترجیح دیتے چونکہ رنگ، نسل، زبان اور قبیلے برادری کا مجھے اختیار ہی نہیں تھا تو میں اس پر طعنہ کیوں دوں اور کیوں سنوں انہوں نے خوب قہقہہ لگایا اور اس دن سے اپنی شہادت تک نواب صاحب نے میرے ساتھ کبھی بھی بحیثیت مجموعی کسی نسل، رنگ اور زبان کے بارے میں بات طنزا بھی گفتگو نہیں کی یہ الگ بات ہے کہ انکے پاس پاکستان کے ہر بڑے رہنما کے خاندانی پس منظر کے بارے میں لچھے دار کہانیاں موجودہ تھیں جو وہ مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ 1971ء تک مشرقی پاکستان میں گالی پنجابی کو نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی مغربی پاکستان کی تمام قومیتوں کو دی جاتی تھی کیونکہ اس دور میں نفرت کا یہی سکہ رائج الوقت تھا۔ لیکن 1971ء کے بعدنفرت کا سودا بیچنے والے قوم پرست سیاستدانوں ، کیمونسٹ نما سیکولر دانشوروں اور ادیبوں نے کسی کو تو ہدف بنا کر مظلومیت کا کارڈ کھیلنا تھا ، اس لیے پنجابیوں کو استحصالی، غاصب اور قابل نفرت بنا کر پیش کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ؛ پاکستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے کے "فیشن" کا آغاز بلوچستان کے سیاحتی مقام پیر غائب میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کے 2005ء میں قتل عام سے ہوا یہ بیچارے چھوٹے ملازمین جن کی تین نسلیں وہاں پر رہ چکی تھیں، اس لیے قتل کر دیے گئے کہ وہ پنجابی تھے۔ اسکے بعد بلوچستان کی شاہراہوں پر یہ معمول بن گیا کہ بس روک کر شناختی کارڈ دیکھے جاتے اور پنجابیوں کو لائن میں کھڑا کر کے قتل کر دیا جاتا کسی جگہ کوئی مزدوری کر رہا ہوتا، مستری، نائی، ترکھان، موچی، نانبائی یا صفائی کرنے والا پنجابی بھی نظر آتا تو اس کو قتل کر کے استحصال کے خاتمے کا پرچم بلند کیا جانے لگا۔ گذشتہ بیس پچیس برس میں اگر پاکستان کے کس علاقے میں وہاں کے رہنے والوں نے خوف کی وجہ سے ہجرت کی ہے تو وہ صرف اور صرف کوئٹہ ہے جہاں سے تقریبا ڈیڑھ لاکھ پنجابی اپنا کاروبار، گھر بار اور نوکریاں چھوڑ کر اس لیے ہجرت کر گئے کہ انہیں کسی ریاستی ادارے کے ایکشن یا آپریشن نے ہجرت کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا بلکہ وہ اس لئے یہ شہر چھوڑ گئے ،کیونکہ وہاں کے رہنے والے لوگ کہیں انہیں مار نہ دیں، وہ لوگ جن کے ساتھ انکی کئی نسلیں ہنستی کھیلتی پروان چڑھیں ہیں یہ لوگ کون تھے ،مزدور اور غریب پیشہ یہاں تک کہ غربت سے تنگ آئے ہوئے پنجابیوں نے اگر ایران کے راستے یورپ ہجرت کی کوشش کی تو انکے قافلے بلوچستان کے شہروں تفتان اور تمپ کے قریب روک کر قتل کردیئے گئے۔ یہ وہ "قابل نفرت پنجابی" تھے جن کے پنجاب سے روزانہ کوئٹہ، سبی، لورالائی، ڈیرہ بگٹی سے روانہ ہونیوالی کئی سو بسیں لاہور ، گوجرانوالہ ،گجرات ،اسلام آباد سے گزرتی ہیں بلکہ پشاور گلگت تک جاتی ہیں اور پھر واپس بے خوف اطمینان کے ساتھ بلوچستان واپس پہنچتی ہیں۔ روزانہ ہزاروں بلوچ ، پشتون ، براہوی ان بسوں میں سفر کرتے ہیں اس پنجاب کے ہر شہر میں آپ کو آزادانہ طور پر بلوچ، پشتون اور سندھی کاروبار کرتے نظر آئیں گے۔ بلوچ سجی اور شنواری ہوٹل کی ہزاروں دکانیں پنجاب میں کسی خوف کے بغیر کاروبار کر رہی ہیں لیکن کیا تربت، گوادر، خضدار، پشین، لورالائی، مستونگ میں کوئی پنجابی مرغ چھولے یا پنجابی حلیم،یا پنجابی دال چاول کا بورڈ لگا کر ایک ریڑھی بھی لگا سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ اسلئے کہ اسے چاروں طرف پھیلا خوف کبھی ایسا نہیں کرنے دے گا کیا جتنے بلوچ اور پشتون طلبہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں اور جس طرح وہ تنظیم بنا کر رہتے ہیں، اس تعداد کا صرف ایک فیصد پنجابی کوئٹہ اور خضدار کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے جا سکتا ہے؟؟ اور اگر چلا بھی جائے تو کیا وہ وہاں پنجابی سٹوڈنٹس کے نام پر کوئی تنظیم قائم کر کے زندہ اپنے گھر واپس آسکتا ہے؟؟ لاہور کے قدیم والڈ سٹی میں اسوقت چالیس فیصد پشتون آباد ہوچکے ہیں اٹک سے رحیم یار خان تک پشتون اور بلوچ بھائیوں کے ٹرک اور ٹینکر بلاخوف روزانہ سفر کرتے ہیں وہ پنجاب میں کسی ڈر کے بغیر گڈز فاروڈنگ ایجنسی کا دفتر کھولتے ہیں راولپنڈی کے رابی سنٹر سے لاہور کے اوریگا سنٹر تک کپڑوں کا کاروبار صرف پشتونوں کے پاس ہے۔ اس سب کے باوجود یہ پنجابی بلوچستان میں خصوصا اور باقی صوبوں میں عموما بحیثیت قوم گالی بنا دیے گئے ہیں۔ ایسی گالی کہ کوسٹل ہائی ویز پر اگر بس روک کر نیوی اور ایئر فورس کے ملازمین کو بھی چن کر قتل کرنا مقصود ہو تو ان میں سے صرف پنجابیوں کو چنا جائے گا۔ پنجابی کے خلاف اس نفرت کی تاریخ زیادہ طویل نہیں آپ ان تمام قوم پرست پارٹیوں کے رہنماؤں کی تقریریں اٹھا لیں آپکو قابل نفرت اگر کوئی قوم ملے گی تو پنجابی، آپ پاکستان کے سیکولر جو پہلے کیمونسٹ ہوا کرتے تھے انکے مضامین، کتابیں اور گفتگو اٹھا لیں آپ کوان تحریروں میں اگر گوادر سے گلگت تک کوئی ایک استحصالی قوم بحیثیت مجموعی ملے گی تو وہ ھے پنجابی۔ قوم پرست سیاست اور پاکستان کی وحدت سے نفرت کرنے والے ادیب، دانشور، صحافی اور کالم نگار خواہ پنجابی ہی کیوں نہ ہوں انکا کھانا اسوقت تک ہضم نہیں ہوتا جب تک پنجابیوں کو بحیثیت قوم ظالم، آمر، استحصالی اور متعصب ثابت نہ کر دیں۔ انکا نوحہ کوئی نہیں لکھے گا یہ کبھی مظلوم نہیں کہلائیں گے۔ 😢😥 Copied

Image
 «اکبر بگٹی نال وقت گزارن والے اک پنجابی دی ڈائری چوں»                             «ان کا نوحہ کبھی نہیں لکھا جائے گا» نواب محمد اکبر بگٹی کے گھر فاطمہ جناح روڈ کی رات گئے کی محفلیں غضب کی ہوا کرتی تھیں، بلا کے مہمان نواز اور حیران کن حد تک دنیا کے ہر موضوع پر مطالعہ رکھنے والے نواب صاحب سے گفتگو زندگی کا حاصل ہے۔  نواب بگٹی اپنے گھر سے چہل قدمی کرتے ہوئے جناح روڈ پر آتے، بولان میڈیکل ہال انکے دوست نوروزعلی میر کی دکان تھی، کچھ وقت وہاں گزارتے، ساتھ ہی بک لینڈ اور کوئٹہ بک سٹال جاتے، کوئی رسالہ یا کتاب خریدتے اور گھر لوٹ جاتے ،جہاں شام کو انکی محفل میں شہر کے معززین، صحافی، ادیب اور دانشور شریک ہوتے۔ نوروز علی میر سے میری ایک طرح کی عزیز داری تھی تو یوں ایک دن انکی دکان پر میری ان سے ملاقات ہو گئی میرے نام پر ان کی شدید حیرت سے میرے ساتھ انکے تعلق کا آغاز ہوا اور آخری وقت تک قائم رہا۔  شروع شروع میں نواب صاحب کبھی کبھی پنجاب کے حوالے سے بات شروع کرتے تو مجھے مخاطب کر کے کہتے "تم پنجابیوں نے" ایس...

اے منحوس مہاندرا مراد راس دی یوپی اشرافیہ گینگ دے رکن تے بدنام زمانہ پنجاب پنجابی دشمن ایم کیو ایم دے سرگرم کارکن اظہر محمود دا اے جنے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور چوں پنجابی ڈیپارٹمنٹ ختم کرکے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ قائم کر چھڈیا اے ، پنجابیو یاد رکھو اے نمک ح ر ا م نسل پنجاب وچ رہ کے پنجاب وچوں کما کھا کے پنجاب دیاں جڑاں وڈھن ڈئی اے ، اے اردو مافیا دا یوپی اشرافیہ گینگ پنجاب دی ونڈ پچھے وی بوھت سرگرمی نال متحرک اے ، پنجابیو؛ اے سبھ تہاڈی کمزوری اے ، تسیں جیس ویلے تائیں ظلم زیادتی تے حق تلفی خلاف واج نئیں چکو گے ، اٹھ کے آپنے حقاں دا دفاع نئیں کرو گے ایہو جئے پنجاب پنجابی دشمناں دا حقہ پانی پنجاب وچ بند نئیں کرو گے اے تہاڈی دھرتی تہاڈے گھر وچ تہاڈے حقاں تے ڈاکے مار دے رہن گے .. پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل وزیراعظم پاکستان وفاقی وزیر تعلیم سمیت سارے متعلقہ لوکاں اگے بھرویں منگ کر دا اے کہ ؛ پنجاب دے بالاں دے جائز بنیادی حق تے ایس ڈاکے دا فوری نوٹس لین ، متعصب وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اظہر محمود نوں ایس ڈاکے تے فوری طور برطرف کرکے اوھدے خلاف اوھدی سیاسی تے فکری تعلق دے انکوائری کرا کے قرار واقعی سزا دتی جائے ... #ShahbazSharif #MaryamNawaz #PMLN #ministryofeducation #AmnestyInternational #PGFInt

Image
 اے منحوس مہاندرا مراد راس دی یوپی اشرافیہ گینگ دے رکن تے بدنام زمانہ پنجاب پنجابی دشمن ایم کیو ایم دے سرگرم کارکن اظہر محمود دا اے جنے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور چوں پنجابی ڈیپارٹمنٹ ختم کرکے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ قائم کر چھڈیا اے ، پنجابیو یاد رکھو اے نمک ح ر ا م نسل پنجاب وچ رہ کے پنجاب وچوں کما کھا کے پنجاب دیاں جڑاں وڈھن ڈئی اے ، اے اردو مافیا دا یوپی اشرافیہ گینگ پنجاب دی ونڈ پچھے وی بوھت سرگرمی نال متحرک اے ، پنجابیو؛  اے سبھ تہاڈی کمزوری اے ،  تسیں جیس ویلے تائیں ظلم زیادتی تے حق تلفی خلاف واج نئیں چکو گے ، اٹھ کے آپنے حقاں دا دفاع نئیں کرو گے ایہو جئے پنجاب پنجابی دشمناں دا حقہ پانی پنجاب وچ بند نئیں کرو گے اے تہاڈی دھرتی تہاڈے گھر وچ تہاڈے حقاں تے ڈاکے مار دے رہن گے .. پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل وزیراعظم پاکستان وفاقی وزیر تعلیم سمیت سارے متعلقہ لوکاں اگے بھرویں منگ کر دا اے کہ ؛ پنجاب دے بالاں دے جائز بنیادی حق تے ایس ڈاکے دا فوری نوٹس لین ، متعصب وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اظہر محمود نوں ایس ڈاکے تے فوری طور برطرف کرکے اوھدے خلاف اوھدی سیاسی تے فکر...

سبھ توں پہلاں تے اردو میڈیا دی ایس خبر تے غور کرو پاکستان دے کسے وی نکر وچ مرن والے سندھی بلوچ پشتون مہاجر لئی کدی تساں ایداں دی خبر پڑھی کہ ؛ فلاں جگہ سندھ بلوچستان یاں کے پی کے کا رہائشی ہلاک ؟؟؟ اے یکی اردو میڈیا صرف پنجابی لئی ورت دا اے ، پنجابیو پنجاب پنجابی نال نفرت کرن والیاں تسیں صرف پنجابی او دین دھرم دا کوئی تعلق نئیں ، کے پی کے وچ پچھلے دناں وچ قتل کیتا گیا سکھ پنجابی ھووے یاں تھلے دتی فوٹو والے عیسائی پنجابی دا بلوچستان وچ قتل جرم ایناں دوناں دا پنجابی ہونا سی ، پنجابیو کی دین اسلام صرف تہانوں ای مسلمان بھرا دا درس دیندا اے بلوچاں پشتوناں تے سندھ وچ سندھی بنے بلوچاں یاں مہاجراں نوں اے دین غریب مسلمان پنجابیاں نوں بیگناہ قتل کرن خلاف کوئی درس کیوں نئیں دیندا؟؟؟ او مسلمان پنجابی نوں مسلمان بھرا کیوں نئیں سمجھدے جداں تسیں اونھاں نوں سمجھدے او ؟؟؟ پنجابیو مسلمان پنجابی دے نال نال سکھ تے عیسائی پنجابیاں دا کے پی کے بلوچستان وچ بزدلانہ قتل اے ثابت کر دا اے کہ اونھاں لئی اکھر پنجابی قابل نفرت اے، کی پنجاب پنجابی نال اے عصبیت علاقائیت والی نفرت دے کر کے بلوچاں تے پشتوناں دی مسلمانیت تے کوئی فرق پیا ؟؟؟ پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل بلوچستان وچ پنجابی ہون دے جرم وچ بیگناہ مارے گئے مسیحی پنجابی دے قتل دی پرزور مذمت کر دیاں بیحس پنجابی اشرافیہ ، بیحس پنجابی سیاست داناں ، بیحس پنجابی مذہبی لیڈراں ، بیحس پنجابی جرنیلاں ججاں سمیت پنجاب دے ذہنی غلام ڈڈو پنجابیاں اگے منگ کر دا اے کہ؛ ذہنی غلامی دی زنجیر توڑو بلوچستان کے پی کے سندھ وچ صرف پنجابی ہون دے جرم وچ عصبیت لسانیت علاقیت سوچ دی دہشت گردی خلاف آپنا ردعمل دوو نئیں تے او دن دور نئیں جد اے اگ اک دنتہاڈے آپنے گھراں تے اولاد تائیں وی اپڑے گی تے اوس دن تہاڈے لئی وی بولن والا کوئی نئیں ہونا ... #PGFInt پنجابی گریجویٹس فورم انٹرنیشنل

Image
 سبھ توں پہلاں تے اردو میڈیا دی ایس خبر تے غور کرو پاکستان دے کسے وی نکر وچ مرن والے سندھی بلوچ پشتون مہاجر لئی کدی تساں ایداں دی خبر پڑھی کہ ؛ فلاں جگہ سندھ بلوچستان یاں کے پی کے کا رہائشی ہلاک ؟؟؟ اے یکی اردو میڈیا صرف پنجابی لئی ورت دا اے ، پنجابیو پنجاب پنجابی نال نفرت کرن والیاں تسیں صرف پنجابی او دین دھرم دا کوئی تعلق نئیں ،  کے پی کے وچ پچھلے دناں وچ قتل کیتا گیا سکھ پنجابی ھووے یاں تھلے دتی فوٹو والے عیسائی پنجابی دا بلوچستان وچ قتل جرم ایناں دوناں دا پنجابی ہونا سی ، پنجابیو کی دین اسلام صرف تہانوں ای مسلمان بھرا دا درس دیندا اے بلوچاں پشتوناں تے سندھ وچ سندھی بنے بلوچاں یاں مہاجراں نوں اے دین غریب مسلمان پنجابیاں نوں بیگناہ قتل کرن خلاف کوئی درس کیوں نئیں دیندا؟؟؟ او مسلمان پنجابی نوں مسلمان بھرا کیوں نئیں سمجھدے جداں تسیں اونھاں نوں سمجھدے او ؟؟؟ پنجابیو مسلمان پنجابی دے نال نال سکھ تے عیسائی پنجابیاں دا کے پی کے بلوچستان وچ بزدلانہ قتل اے ثابت کر دا اے کہ اونھاں لئی اکھر پنجابی قابل نفرت اے،  کی پنجاب پنجابی نال اے عصبیت علاقائیت والی نفرت دے کر کے بلوچاں تے ...

پنجابیو زرداری دا ڈومیسائل بارے بیان کہ؛ ««عمران خان اور میرے میں ڈومیسائل کا فرق ھے مجھے 14 سال قید رکھا گیا جبکہ لاڈلے عمران کیلئے عدلیہ کی عنایتیں پنجاب ڈومیسائل کی وجہ سے ہیں »» تہاڈے لئی لمحہ فکریہ اے ؛ پنجاب دے ڈومیسائل تے غیر زمین زاد آپنے کرتوتاں دا سارا ملبہ پنجابی گلے مڑھ دے آ رئے نیں ، بنگلہ دیش دا معاملہ ہووے یاں سندھ بلوچستان وچ ہون والے کارنامے سارے پنجاب ڈومیسائل تے نوکریاں تے قبضہ کرن والے غیر پنجابی سن یاں دوجے صوبیاں دے لوک ، پر ایناں کارنامیاں دا سارا ملبہ پنجاب پنجابی تے پنجاب ڈومیسائل دے کرکے پا دتا گیا ، پنجابیو اکھاں کھولو تسیں کیوں ہر واری کسے دوجے دیاں کیتیاں بگھت دے او ؟؟؟

Image
 پنجابیو زرداری دا ڈومیسائل بارے بیان کہ؛  ««عمران خان اور میرے میں ڈومیسائل کا فرق ھے مجھے 14 سال قید رکھا گیا جبکہ لاڈلے عمران کیلئے عدلیہ کی عنایتیں پنجاب ڈومیسائل کی وجہ سے ہیں »» تہاڈے لئی لمحہ فکریہ اے ؛ پنجاب دے ڈومیسائل تے غیر زمین زاد آپنے کرتوتاں دا سارا ملبہ پنجابی گلے مڑھ دے آ رئے نیں ، بنگلہ دیش دا معاملہ ہووے یاں سندھ بلوچستان وچ ہون والے کارنامے سارے پنجاب ڈومیسائل تے نوکریاں تے قبضہ کرن والے غیر پنجابی سن یاں دوجے صوبیاں دے لوک ، پر ایناں کارنامیاں دا سارا ملبہ پنجاب پنجابی تے پنجاب ڈومیسائل دے کرکے پا دتا گیا ،  پنجابیو اکھاں کھولو تسیں کیوں ہر واری کسے دوجے دیاں کیتیاں بگھت دے او ؟؟؟